Aas abhi baqi hai آس ابھی باقی ہے

Aas abhi baqi hai full novel
Welcome To FodiesUrMagzine

آس ابھی باقی ہے   (Aas abhi baqi hai)
پارٹ نمبر 1
صبح کی روشنی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چار سو پھیل چکی تھی جوگنگ ٹریک جاگنگ کرتے ہیں سے خاصا وقت گزر چکا تھا .کیسےاترتا ہے وہ اپنی مخصوص بینچ پر کچھ دیر سستانے بیٹھ گیا .نگاہ عادتاً دائیں بازو پر بندھی گھڑی پر پڑی تو لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔روز یہی وقت ہوا کرتا تھا جب وہ پہنچ پر آکر بیٹھتا۔یہ اس کا معمول تھا،دفتر جانے سے پہلےڈیڑھ گھنٹہ وہ اسی پارک میں گزارتا تھا۔


پانی کی بوتل منہ سے لگاتے ہوئے اس کی نگاہیں اطراف کا جائزہ لے رہی تھیں۔یہاں آتے ہوئے اسے خاصا طویل عرصہ ہو گیا تھامگر اس نے کسی سے روابط بڑھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔لوگوں کی بھیڑ اب اس سے خوشی نہیں دیتی تھی۔وہ بس خاموشی سے لوگوں کے چہرے پہ ٹٹولتارہتا تھا۔کبھی دین اپنی زندگی کی جانب بھٹک جاتا۔کہنے کو اس کے پاس سب اس دفعہ پھر بھی جیسے کچھ کمی سی تھی ۔ ایک بے سکونی سی تھی جو اسے اپنی زندگی میں محسوس ہوتی۔ موبائل پر بجتے الارم نے اسے سوچوں کے بھنور سے نکالا تو گہری سانس لیتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔سکون کے وہ پندرہ منٹ ختم ہو چکے تھے جن میں وہ سوچوں کے سمندر میں بہہ جایا کرتا تھا۔اب آفس پہنچتے ہی اس کی مصروف ترین روٹین کا آغاز ہونے والا تھا۔ وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا جس کا ہر لمحہ قیمتی تھا۔
گھر کے دروازے سے اندر گھستے ہی اس نے سفید رنگ کی چادر اتار کر برآمدے کی کی چارپائی پر اچھا لی اور خود چھوٹے سے کچن کے باہر لگے بیسن کی جانب بڑھی، نل کھولنے پر پانی کی پتلی سی لکیر بہنیں لگی جسے دیکھتے ہی اس کے چہرے کے زاویے بگڑے۔
پانی ختم ہوگیا ہےزوہاباجی!اور بجلی بھی نہیں ہے۔ دروازہ بند کرکے کچن کی جانب جاتی اریبہ نے اطلاع دی۔ پانی اب ٹپک رہا تھا۔مجبورا ہتھیلی میںچند قطرے بھر کر اس نے چہرہ تھپتھپایا جو گرمی کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ گہری سانس لیتی وہ چارپائی پر جا کر ٹک گئی۔
حسرت بھری نگاہ برآمدے کی چھت پر لگے پنکھے پر ڈالیں جو ساکن تھااور یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔یہ تنگی اور غربت تو آنکھ کھلتے ہی اس کے نصیب میں آئی تھی جس کے ساتھ اس سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔زندگی میں اور بھی بہت سے محرومی تھی جو اس کے ساتھ پل کر جوان ہوئی تھی۔ وہ جو نیم دراز ہو چکی تھی۔اریبہ کے کندھا ہلانے پر اٹھ بیٹھی۔اس کے ہاتھ سے کھانے کی ٹرے لے کرسامنے رکھی۔سالن کے نام پر مبنی وہ پتلی سی دال چوتھی بار اسے پیش کی گئی تھی۔
یہ کیا ہے؟” 
عرف عام میں اسے دال کہتے ہیں۔اریبا نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
اور یہ قیدیوں والی دال کب تک ملتی رہے گی۔قد آور نہیں ہے کھانے میں؟پرسوں سے یہی کھا رہی ہوں۔زوہا نے منہ بنایا۔
بس یہ آخری پلیٹ ہے۔رات سے چھولے ملیں گے۔اریبہ نے شرارت سے کہا۔مہینے کے آخر میں انہیں یوں ہی ایک سالن کو چار دن تک کھانا پڑتا تھا۔بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے نوالہ توڑ لیا۔شام کے چھ بج رہے تھے اور یونیورسٹی میں بھی آج اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔
بس ایک بارمیرا یہ اگر اس میں سے ختم ہو جائے گا پھر اچھی سی جوب کروں گی۔تم دیکھنا کیسے دن پھریں گے ہمارے۔
یہاں تو لوگوں کو اچھی کیا بریجا بھی نہیں ملتی۔اتنے بڑے بڑے خواب من دکھائیں زوہا  باجی۔اریبہ اپنی کتابیں سمیٹتے ہوئے بولی۔
خواب دیکھنا بری بات نہیں ہوتی اور میں زوہا ہوں،خوابوں کی تعبیر حاصل کرنا جانتی ہوں۔تم بس دیکھتی جاؤ۔وہ کچھ سوچ کر مسکرائے پھر نظر اس کے ستائے ہوئے چہرے پڑی۔
تمہیں کیا ہوا ہے 
وہ کچھ دنوں سے کالج سے واپسی پر ایک لڑکا میرے پیچھے آتا تھا میں خاموشی سے نکل آتی تھی مگر آج اس نے مجھے روک کر بات کرنے کی کوشش کی بہت عجیب باتیں کر رہا تھا زوہا باجی اسے بتاتی وہ روہانسی ہوئی 
اس سے اتنی جرت کے وہ تمہیں تنگ کر رہا تھا زوہا کو سن کر شدید غصہ آیا 
اور تم ڈر کر بھاگ آئی 
تو کیا کرتی ہیں اریبہ نے لب کاٹے
لگاتی ایک دوست پروہی اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتےزوہا نے اسے جھارا۔اس کا دل چاہا خود اس کی درگت بناآئے
کیسی نصیحتیں کر رہی ہوں چھوٹی بہن کوعالیہ بیگم کمرے سے نمودار ہوئی خشمگیں  نظریں زوہاپر تھیں۔
لڑکیوں کو اپنی حفاظت کرنا آنا چاہیے
حفاظت کے اور بہت سے طریقے ہوتے ہیں مرد کے منہ پر مارے ہوئے تھپڑ کا خامیاں بھی عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہےاسے اپنی جیسی منہ زوری نا سکھاؤ پھر روک اریبہ کی جانب کیا
اس نے سر ہلایا اور ان کے جاتے ہی زوہا کو دیکھا آپ کے لیے ٹیوشن والے بچے بھی آنے والے ہونگے
ہاں لے آؤ میں تو جیسے روز جھگڑ کر آتی ہوں۔
کچن کی جانب جاتی اریبانے اس کی بربراہٹ سنی تو مسکرا دی۔ جانتی تھی کہ جذبے میں وہ کچھ زیادہ بول جاتی تھی مگر یہ بھی سوچا تھا کہ وہ کسی کو خود سے بدتمیزی کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی
اپنے دفتر میں بیٹھی اس لڑکی کا اس نے بغور جائزہ لیا  سٹائلشسے جوڑے میں ملبوس وہ لڑکی  پراعتماد انداز میں اسے دیکھ رہی تھی
ہمدانی گروپ آف کمپنی کے آفس میں بیٹھ کر آپ یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ آپ عزیر ہمدانی کی بیٹی ہیں امیزنگ اس نے نہایت سنجیدگی سے طنز کیایہی سچ ہے کہ عزیر ہمدانی نے ایک اور شادی بھی کر رکھی تھی اور میں ان کی بیٹی ہوں۔
وہ خود اعتمادی سے بولی
ایسے بہت سے فراڈ ہوتے دیکھے ہیں میں نے آپ میرا اور اپنا وقت ضائع نہ کریں
کیا آپ سچ جاننے کی کوشش نہیں کریں گے
آپ یہاں سے جا سکتی ہیں سختی سے بولتے ہوئے اس نے اپنی نگاہیں لیپ ٹاپ کی سکرین کی جانب موڑ لیاپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اس کی ٹیبل تک آئیں دونوں ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھکی
پھر آپ سے کورٹ میں ملاقات ہوگی مسٹر ایان عزیر کیوں کے اس جائیداد پر آپ اکیلی حصہ دار نہیں ہے
شوق سے کورٹ میں جائیںمگر افسوس آپ کی ملاقات محض میرے وکیل سے ہوگی شوق سے اپنا پیسہ اور وقت برباد کیجئے اور اب اس دفتر کا رخ مت کیجئے گا کیونکہ آئندہ آپ کو یہاں کوئی گھسنے نہیں دے گا
اس پر نگاہ ڈالے بغیر اپنی بات کہتاوہ اس کے جانے کا منتظر تھاوہ جانے کے لیے مڑ گئی۔ اس کی ہیل کی ٹک ٹک پر ایان عزیر کےماتھے پر شکن ابھری۔ پھر سر جھکتا ہے وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا
یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی وہ نوٹس بنا رہی تھی
کیا ہے یہ بھئی۔میں بور ہو گئی ہوں۔  صبح سے بیٹھے ہم یہی کچھ کر رہے ہیں انم نے سر اٹھا کر اکٹاہٹ کا اظہار کیا
اگلے مہینے مڈ ٹم تھے ابھی نوٹس بنانے گے تو آسانی رہے گی نورین کا پتا ہے نہ بہت مشکل پیپر بنائیں گی؎
کل تو مڈ ٹرم نہیں ہے نا بس کر دو پلیز ہم نے گویا منت کی۔
بات کرتے کرتے اسے یکدمکچھ یاد آیا تو اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے کاغذ نکال کر زوہا کی جانب بڑھایا
یہ نمبر جعفری صاحب کا بات کر لینا تھینک یو یار زوحا کاغذ تھا متی خوش ہوئی چلو بھوک لگ رہی ہے کچھ کھاتے ہیں۔ان کے شور مچانے پر وہ اٹھ گئی۔
ایک دوست کو چار سال ہونے والے تھے  تینوں مختلف پس منظرسے تعلق رکھتی تھیں مگر اس وجہ سے ان کی دوستی کبھی متاثر نہیں ہوئی تھی عنایا کے والد بزنس مین تھاجبکہ آئین کے بعد ماموں نے سرکاری ملازم تھے اور زوہا کی صرف والدہ تھیں جنہوں نے اسے پالا تھایہ شہر کی مہنگی یونیورسٹی میں تھیجس میں اسکالرشپ پر انعم اور زوہا کو داخلہ ملا تھا۔
وہ خاصی عجلت میں ریسٹورنٹ  داخل ہوئی تھیں۔
گہرے سبز رنگ کی فراک میں ملبوس جس پر سبز رنگ کے دو شیر والے دھاگوں سے کڑھائی کی گئی تھی ساتھ میں آف وائٹ سٹریٹ ٹراؤزر پہن رکھا تھا کندھے پر آف وائٹ دوپٹہ جس کے کنارے پر گہری سبز رنگ کی پٹی لگی ہوئی تھی بالوں کو خوبصورتی سے سیٹ کرکے آدھا کیچڑ میں باندھ رکھا تھا چہرے پر نرمی بڑا معصوم سا تاثر تھا جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا مما پہلے ہم لانچ کریں گے جی روبی آ رہی ہے اوکے ماما موبائل کان سے لگایا وہ دوسری جانب موجود شخصیت سے بات کر رہی تھی فون کرکے بہنے لگتے ہیں اس نے سر اٹھایا تو سامنے سے سے آتے شخص کو دیکھ کر وہ اگلا قدم اٹھانا بھول گئی 
کتنے دنوں بعد وہاں سے نظر آیا تھا بے اختیار وہ اسے پکار بیٹھیں 
ایان وہ قریب آتا متوجہ ہوا 
پریسا کیسی ہو 
فائن آپ کیسے ہیں 
آئی ایم گڈ بس میٹنگ اٹینڈ کر کے جا رہا ہوں آپ غالبا لنچ کرنے آئیں ہیں گھڑی میں وقت دیکھتے اس نے اندازہ لگایا 
فرینڈ کے ساتھ پینٹنگ ایگزیبیشن جانے کا پلان تھا تو سوچا پہلے لنچ کرنے آپ بھی ہمارے ساتھ لنچ کریں پریسا نے آفر کی 
میں تو لنچ کر چکا ہوں آپ انجوائے کریں مجھے آفس کو چنا ہے آنٹی کیسی ہیں اس نے اسے روکنے کی غرض سے بات بڑھائی 
وہ ٹھیک ہیں آپ چکر لگائے گا عجلت میں بات ختم کرتا ہے وہ آگے بڑھ گیا وہ کچھ پل کے لیے وہیں کھڑی اس کی موجودگی کو محسوس کرتی رہیں 
کب تک یہاں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے روبی نے پیچھے سے آ کر اس کا بازو ہلایا
 تم کب آئیں وہ چونکی 
جب تم ایان عزیر کے ساتھ مصروف گفتگو تھی روبی کے ذومعنی انداز پر پریسا نے نگاہیں چرائیں
چلو لانچ کرتے ہیں پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے تیز قدم بڑھاتی وہ ہال کی جانب بڑھ گئی 
آج اس کی دو کلاسیز اوف تھی تو وہ یونیورسٹی سے سیدھی جعفری صاحب سے ملنے کی غرض سے کچہری آ گئی تھی عراق میں اس نے ان سے ملاقات کا وقت طے کرلیا تھا مگر یہاں پہنچتے ہیں اسے لوگوں سے معلوم ہوا کہ اچانک ہی وکیلوں نے ہڑتال کا اعلان کردیا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی کام نہیں ہو پائے گا ایک شدید گرمی اوپر سے یہ غیر متوقع صورتحال سے سخت غصہ آیا تھا باقی لوگ بھی ہنستے ہوئے چہرے لئے کھڑے تھے جن میں ایک اماں جی تھی جو اس کے ساتھ تھی تین بسیں بدل کر وہ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچی تھیں ۔
آپ ٹھہرے میں بات کرتی ہوں ان سے کہہ دیں وہ اس بندے کے پاس آئے جو انہیں اطلاع دیتا اب جانے کا کہہ رہا تھا 
کل تک تو ہر تار کی کوئی خبر نہیں تھی یہ اچانک سب کام بند کر دینے کا کیا مطلب ہے 
بی بی ہم کیا کر سکتے ہیں ہمیں تو جو حکم ملے گا وہی کہیں گے وہ پہلےہی سب کے سوالوں سے اکتایا ہوا تھا 
ہاں تو کدھر ہیں آپ کی انتظامیہ کے لوگ مجھے بات کرنی ہے اسی وقت اندر سے آتے شخص پر اس کی نگاہ پڑی جو اپنے حلیے سے وکیل لگ رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر اسے مخاطب کیا 
ایکسکیوز می وہ متوجہ ہوا تو وہاں نے بولنا شروع کیا 
سریا ہسپتال کا کیا سلسلہ ہے کل تک تو ایسا کچھ نہیں تھا پھر ہم سب وقت لے کر آئے ہیں ہمیں ہماری مجبوری لے آئی ہے ورنہ اس طرح اپنا کام چھوڑ کر کون آتا ہے 
احرار نے بغور اس پر اعتماد لڑکی کو دیکھا عام سی سفید چادر میں اپنے آپ کو ڈھانپے وہ سانولے رنگ کی لڑکی جس کی بڑی بڑی آنکھیں خاصی سحرا انگیز تھیں۔
اس کی آنکھوں میں دیکھتی سراپا سوال بنی کھڑی تھی 
آپ کو کس سے ملنا ہے احرار نے بے ساختہ پوچھا 
جعفری صاحب سے مگر اس ہنگامی ہرتال کی وجہ سے کسی کو بھی وکیل سے ملنے نہیں جانے دیا جا رہا ہے 
ہاں جعفری صاحب بیٹھے ہیں میں آپ کو ان سے ملوا سکتا ہوں مجھے وہ انکار نہیں کریں گے 
اس کی بات پر زوہا نے حیرت سے اسے دیکھا 
اور باقی سب میرا مطلب ہے یہ ہرتال اس نے بات کاٹی
اپنی باتیں کیجیے یہ فیور میں آپ کو دے رہا ہوں 
اور یہ فیور آپ مجھے کیوں دیں گے وہ گھوٹکی 
خوبصورت لڑکیوں کے لئے گنجائش تو نکالنی پڑتی ہے اس کے لب مسکرائے اور زوہا کا گویا خون ہی ابل پڑا 
ایک منٹ آپ نے سمجھ کیا رکھا ہے ہم لوگوں کو یہاں آئی لڑکیوں مجبور ہیں تو آپ ان کو کچھ بھی کہتے پھریں گے
آپ ہوتے کون ہے مجھے فیور دینے والےزوہا کی تیز آوازپر سب متوجہ ہوئے تھے
میںاحرار نے بولنے کی کوشش کی مگر سامنے زوہا تھی
اس کچہری میں کھڑے ہوکرآپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ لوگوں کی عزت اچھالنے کا پرمٹ مل گیا ہےکیونکہ یہ عام لوگ تو مجبور ہیں نا؟اس کا طنزیہ انداز آنکھوں میں نڈر پن تھالمحے بھر کے لئے وہ کچھ بول نہیں سکتا تھا
کیا ہوا احرارکوئی مسئلہ ہےیکدم ایک شخص اندر سے برآمد ہوا
زوہا اس کی جانب گھومی
ان سے کیا پوچھ رہے ہیں میں بتاتی ہوں آپ یہ وکیل یہاں کھڑے ہوکر فلرٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیںآپ نے ان ینگ وکیلوں کو اگر تھوڑی سی اخلاقیات دکھا دیں تو زیادہ بہتر رہے گا
 اس پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں وہ تیز قدموں سے مرگئ جب کہ اگر ان کی نظروں سے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا
وہ شام میں اکثر پارک میں چہل قدمی کی غرض سے آ جایا کرتا تھا۔ یہ پاک اس کے گھر کے قریب تھا سو ڈیوٹی کے بعد وہ یہاں وقت گزارنا پسند کرتا تھا کچھ بچے فٹ بال کھیل رہے تھے وہ ان کو دیکھتا اسی حصے کی جانب آ گیا ان کے دائیں جانب بیچ تھا جس پر ایک لڑکی اپنے آپ میں مگن بیٹھیں بظاہر سامنے ہی دیکھ رہی تھی بچوں کو دیکھتا وہ آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ ایک دم فٹ بال تیزی سے اس کی جانب آئی جس کو اس نے پھرتی سے کیچ کر لیا ورنہ وہ یقینا اس بینچ پر بیٹھی لڑکی کے سر پر زور سے لگتی ہے آپ کو دیکھ کر بیٹھنا چاہیے اس گروپ پر بچے فٹ بال کھیل رہے ہیں ابھی یہ بات آپ کو لگ جاتی لڑکی کے قریب جا کر اس نے کھنکار کر کہا تو وہ جیسے اپنے خیالات سے چونکی میں دیکھ نہیں سکتی وہ جو بچوں کو تک رہا تھا اس کے عام سے انداز میں بولے جملے بے اختیار اس کی جانب گھوما۔ وہ سفید رنگتاس پر خوبصورت نقوشہونٹ کے ذرا اوپر چھوٹا سا تیل چہرے پر معصوم سا تاثر سٹائل شرٹ ٹراؤزر پہننے والوں کو چھٹیاں دائیں کندھے پر ڈالے بائی پر بھٹہ رکھے وہ اپنے حلیے سے کسی طرح بھی کسی کمی کا شکار نہیں لگ رہی تھی اس نے غور سے اس کی آنکھوں کو دیکھا جو روشنی سے محروم تھیں انکل بال دے دیں بچے کے کہنے پر وہ چونکا اور ہاتھ میں پکڑی گیم اس کی جانب اچھال دی ساتھ ہی اس نے دوسرے رخ پر کھیلنے کی گزارش بھی کر ڈالی بچہ چلا گیا آپ اگر مائنڈ نہ کریں تو میں یہاں بیٹھ جاؤ اس نے اجازت لینی چاہی آپ کی مرضی ہے شکریہ وہ نرمی سے کہتا بینچ کے دوسرے سرے پر ٹک گیا 
آپ بھی  شاعر میری طرح  یہاں پر فریش ہونے آتی ہیں 
میں یہاں سانس لینے آتی ہوں سکون کچھ پل گزار نے اپنے اندر کے شور کو دبتہ محسوس کرتی ہوں یہاں بیٹھ کر وہ خود کلامی کے سے انداز میں بولی تھی پھر جیسے  اس کی موجودگی کا احساس ہونے پر خاموش ہوگئی 
آج تو موسم بھی خاصا خوشگوار ہے اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا اس بار وہ خاموش رہی 
اب یہاں اکیلی ہوتی ہیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں میں اندھی ہوں تو اکیلی نہیں آ سکتی
اس نے ناگواری سے بات کرتی تو اسے شرمندگی نے آن گھیرا۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا آپ ایسے کیوں سوچ ۔۔۔۔
اب آپ مجھ سے ہمدردی کے چند جملے بولیں گے تو میں آپ کو بتا دوں کہ مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے تلخی سے کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئیاور اس کے کچھ آگے جاتے ہیں ایک لڑکی اچانک کہیں سے کہیں سے نمودار ہوئی اور مستعدی سے اس کیجانب بڑھی۔ ان کو جاتے دیکھ کر وہ سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا
وہ تو اتر گیا جیٹ لیگ۔ سرفراز صاحب نے اخبار سمیٹتے ایک مسکراتی نظر اپنے جوان بیٹے پر ڈالیں جو رات کی فلائٹ سے انگلینڈ سے واپس آیا تھا اور آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند کے بعد اب فریش سا کھانے کی میز تک آ رہا تھا
ماما کیا بنایا ہےزبردست خوشبو آ رہی ہےتمہارے پسندیدہ کوفتے بنائے ہیں آخری روٹی ہارٹ پاٹ میں رکھتی صوفیہ بیگم جواباً بولیں چہرے پر خوشی رقصاں تھی 
واؤ۔اس کے منہ میں پانی آگیا آپ کے ان کوفتوں کو بہت یاد کیا وہاں 
سن رہی ہو بیگم کوفتوں کا کو یاد کیا ہمارے بیٹے نے سرفراز صاحب نے شرارتی انداز میں کہا تو حمزہ نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا 
بھائی تمہاری ماما سے شرط لگی تھی میری 
کیسی شرط اس نے پانی گلاس میں انڈیلتے ہوئے بولا 
اس کا کہنا تھا کہ تم واپس نہیں آؤ گے وہی جو کر کے سیٹل ہو جاؤ گے جب کہ مجھے اپنے بیٹے پر پورا بھروسہ تھا انہوں نے مزے سے کہا 
اف ہو تمہارے بابا تو خوامخواہ کہانی بنا دیتے ہیں میں نے محض اپنے خدشے کا اظہار کیا تھا اور یہ خود ہی شرط باندھ بیٹھے سالن کا ڈھونگ اور ہاٹ پات لاتی صوفیہ بیگم چلائیں۔
حمزہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی
اور آپ نے ایسے خوشی کا اظہار کیوں کیا میں آپ کا ہمزہ ہو آپ دونوں کے بغیر کیسے رہ سکتا ہوں اعتماد سے بولتے حمزہ پر انہیں ٹوٹ کر پیار آیا وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا جو دل میں ہوتا اس کا برملا اظہار کر دیتا 
اب تم آ گئے ہو تو فوراً شادی کر دوں گی بہت انتظار کر دیا خانہ شروع کرتے ہیں انہوں نے کہا 
یہ شادی کہاں سے آگئی بیچ میں لقمہ منہ میں رکھتے وہ بولا
بس اب میں کچھ نہیں سنی پہلے بھی تم ڈالتے رہے ہو مجھے,اب میں ٹلنے والی نہیں ہوں 
ہم تو پہلے بھی مانتے ہیں آپ ہرگز چلنے والوں میں سے نہیں ہیں سرفراز صاحب نے ٹانگ آڑائی۔ انداز شوخ تھا جس پر حمزہ مسکرایا جبکہ صوفیہ بیگم نے انہیں گھورا۔
میں تو لڑکی بھی پسند کر چکی ہوں
ہیں اب یہ لڑکی کہاں سے ٹپک پڑی ماما تھوڑی بریک لگائی ابھی تو میری جوب بھی شروع نہیں ہوئی ہو یا بیگم کی سنجیدگی جانچتے ہوئے کہا 
جاب بھی ہو جائے گی بہرحال تم لڑکی سے  ملو گے تو تمہیں پسند آئے گی 
کون ہے محترمہ 
میری بہت پرانی دوست کی بیٹی ہے بہت اچھی ہے 
اوکے ملنا ہی پڑے گا پھر تو اس نے گویا حامی بھری تو صوفیہ بیگم مطمئن سے کھانا کھانے لگی 
تم احرار فاروقی سے لڑ کر آگئی ہو تمہیں پتہ ہے وہ کون ہے عنایہ کی پریشان آواز پر اس نے اطمینان سے اسے دیکھا 
وہ بار کونسل کے صدر کا بیٹا ہے تمہیں اس سے بگاڑنے کی کیا ضرورت تھی 
وہ مجھ سے بدتمیزی کر رہا تھا اور اس کی بےعزتی کرنے پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے پر تم اسے کیسے جانتی ہوں زوہا نے خیال آنے پر پوچھا 
ڈیٹ کے دوست کا بھانجا ہے تمہیں آئندہ اس سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور جعفری انکل سے بھی ذکر مت کرنا اس کسے کا ورنہ وہ ناراض ہوں گے کوئی بھی ان باپ بیٹے سے بگاڑنا پسند نہیں کرتا عنایہ نے اسے مطلع کیا تو اس نے سر ہلا دیا اس سے بھی خوامخوا کسی سے الجھنے کا شوق نہیں تھا یوں بھی حساب تو وہ لے ہی چکی تھی اس کی بدتمیزی کا 
وہ اس وقت کسی کام سے ایڈمن بلاک آئی ہوئی تھی اور اب ایک دفتر کے باہر کھڑی انعم کا انتظار کر رہی تھی ۔
"عنایا"، ایک دم کسی کے پکانے پر وہ چونکی ۔ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر جہاں عنایہ کھڑی تھی وہیں زویہ نے اسے تیکھے تیوروں سے دیکھا۔اس کی شکل دیکھتے ہی ایک ناگواری کی لہر سی اندر سے اٹھی جسے اس نے دبانے کے لئے اپنی توجہ ہاتھ میں پکڑی وائل کی جانب مبذول کرلی 
تمہیں دیکھ کر اچھا لگا عنایہ ۔عنایہ سے کہتے ہوئے اس نے بے نیاز کھڑی زوہا کو دیکھا۔
"آپ یہاں ؟ "۔ عنایہ حیرانی سے بولی آخر یہ جانا کہاں سے ٹپک پڑا تھا۔
 کسی کام سے آیا تھا۔ اپنی دوست سے نہیں ملوائیں گی ۔ وہ مسکراتے لہجے میں بولا تو عنایا کو غصہ آیا ،مگر ظاہر نہیں ہونے دیا۔
" یہ زوہا ہیں اور زوہا! یہ احرار فاروقی ہیں۔"
"وکیل ہیں "۔
"نائس ٹومیٹو "،زوہا اس کے مخاطب کرنے پر اسے خاصی تپ  چڑھی۔
"افسوس میں یہ جملہ بھی نہیں بول سکتی "۔اس کے سپاٹ انداز پر عنایا نے اسے تنبیہی نظروں سے دیکھا جبکہ احرار کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔
ہوں ۔مانتا ہوں، ہماری پہلی ملاقات نہ خوشگوار انداز میں ہوئی پر ٹرسٹ میں اتنا برا انسان نہیں ہوں، جتنا آپ سمجھ رہی ہیں چلتا ہوں میں امید ہے اگلی بار آپ تھوڑا سا مارجن دیں گی 
مسلسل بچتے فون کو جیب سے نکالتا ان پر الوداعی نگاہ ڈالتا وہ آگے بڑھ گیا توعنایا نے اسے ڈپٹا۔ 
"کیا ضرورت تھی اس سے روڈ ہونے کی کی بس اگنور کرو اسے مجھے بھی وہ پسند نہیں ہے پر جان پہچان کے لحاظ سے میں ہلکی پھلکی بات کر لیتی ہوں۔"
"سوری! میں ایسا دوگلاپن نہیں دکھا سکتی جو مجھے نہیں پسند تو نہیں پسند میری مرضی"۔ زوہا کے اس انداز پر عنایا گہری سانس لے کر رہ گئی اسے سمجھانا کونسا آسان کام تھا۔
"تقریب شروع ہو چکی تھی وہ ایک طویل عرصے کے بعد کسی تقریب میں شریک ہوئی تھیں اور اس کی وجہ سے مما کے سوشل سرکل کی وہ خواتین تھی جن ہی اسے دیکھتے ہی اس کی شادی کی فکر ستانے لگتی اور کتنی ایسی خواتین جو اپنے بیٹوں کے لیے رشتہ دے چکی تھی۔ مگر اس کی نہ ہمیں نہ بدل سکی تھی ۔اور مما ،اس کے ہر بار کے انکار پر ناراض ہوئی تھی اسی لیے اس نے تقریبات میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب بھی وہ محض روبی کے اسرار پر آئی تھی ۔کیونکہ یہ تقریبا اسی کے گھر پر تھی ۔
"سرسری نگاہ سے سامنے دیکھتی وہ یکدم ساکن ہو گئی ۔سامنے سے آتا وہ ایان عزیر ہی تھا ۔اس کی آنکھیں جگنوؤں کی مانند چمکنے لگی اس کا روک بھی اسی جانب تھا مگر وہ اسے دیکھے بنا دائیں جانب مرگیا، تو اس کی آنکھوں کی روشنی بجھ گئی ۔یہ منظر دیکھتی روبی اس کے قریبآ  رُکی جو اپنی آنکھ میں آئی  نمی انگلی کے پوروں سے چن رہی تھی۔
"تم کیوں نہیں مان لیتی کے یکطرفہ محبت اذیت کے سوا کچھ نہیں دیتی تم اسے کبھی بھی نظر نہیں آئیں "روبی نے ہمدردی سے اپنی عزیز دوست کو دیکھا۔
"ضروری  نہیں تو نہیں کے کبھی بھی نظر نہ آؤں " وہ سنبھل کر مسکرائی تو روبی کو تاؤ آیا۔
 "کیا وہ تمہاری قسمت میں نہیں ہیں اگر ہوتا تو دانیا سے شادی نہ کرتا۔" 
"دانیا جا چکی ہے"
 "تم تو پھر بھی نہیں ہو اس کی زندگی میں اس کو لب کاٹتے دے کر وہ نرم پڑی"۔
  "کس کا امتحان لے رہی ہوں یا انکل آنٹی کا؟"
 "پر مجھے یقین ہے وہ میری طرف آئے گا"۔ وہ اعتماد سے دور کھڑے ایان عزیر کو دیکھ کر بولی ،تو روبی چپ رہ گئی اس کے لہجے کا یقین قابل رشک تھا۔
 تھا "ہم وہاں ڈھونڈ رہے ہیں، اور آپ دونوں یہاں الگ تھلگ بیٹھی ہوئی ہیں"۔ یہی خوش مزاجی سے بولتا فخر قریب آیا ساتھ میں کوئی اور بھی تھا۔ روبی نے اپنے کزن کو دیکھا جو اس کا منگیتر بھی تھا ۔
"ہم بس کھانے کی طرف جا رہے تھے کھانا شروع ہونے والا ہے" ۔روبی نے  نارمل انداز میں مسکرا کر کہا۔ 
"پریسا ان سے ملیں یہ طلال ہیں میرے بہت اچھے دوست ان کو بھی  پینٹ اس کا خاصا شوق ہے"۔ فخر سر اس سے مخاطب ہوا
تو آپ ہیں پریسا ،اس کے بولنے سے طلال کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ بہت گہری تھی ۔پریسہ نے روبی کو دیکھا جو نگاہ چوڑا گئی تھی ۔
"ایکسکیوز می "،وہ تیز قدموں سے ان کے بیچ سے نکلتی چلی گئی تھی۔ 
لب کاٹتی وہ آنکھوں میں آنسو کو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہوئی جارہی تھی۔ ایک دم جیسے وہ رکی تھی، سامنے ہی وہ کھڑا کسی کی بات پر ہولے سے مسکرا رہا تھا۔ اس کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ کیسی بھلی لگ رہی تھی ۔وہ کتنی دیر وہاں ساکت کھڑی رہی، مگر اس کی آنکھوں کی تپش اسے محسوس نہ ہو پائی تھی ۔ آخر کیوں تھا وہ ایسا؟ ایسا دل میں شکوہ دبائیں وہ سست قدموں سے آگے بڑھ گئی تھی ۔
"آپ کے لیے میرے پاس ایک خبر ہے "۔زوہا نے چائے لاتی اریبہ کو استفہامیہ نظروں سے  دیکھا ۔آج وہ یونیورسٹی سے واپسی پر آپ نے اور اس کے لیے برگرز لائی تھی اور مزے سے دعوت اڑانے کے بعد اب اریبہ چائے لے آئی تھی ۔ مہینے کے شروع میں وہ ایک ایک بار یہ عیاشی کر لیا کرتی تھیں اور ان دنوں ٹیوشنز بھر گئی تھی ۔
"اب بتا بھی دو، کیا خبر ہے۔" اس کے اوپر تجسس انداز پر زوہا کو کہنا پڑا ۔
"آپ کے لیے رشتہ آیا ہے ۔"اریبا نے بم پھوڑا۔ زوہا ٹھکی۔چائے کی پیالی کی جانب بڑھا ہاتھ ترک گیا ۔
"اور یہ جرات کس نے کی ؟" 
"خالہ امی کی دوست صوفیہ آنٹی نے ۔"اریبہ نے مزے سے اطلاع دی۔ صبح سے وہ یہ خبر دبائے بیٹھی تھی۔
"مجھے تو سوچ کر ہی مزا آ گیا زوہا باجی !کتنا مزا آئے گا آپ کی شادی ہوگی۔" اریبہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
 "کوئی شادی وادی نہیں ہوگی ۔"زوہا کو اس کی خوشی  بالکل بھی نا بھائی ۔
"اور یہ صوفیا آنٹی کو کیا سوجھی، جی ان کا بیٹا تو انگلینڈ میں ہوتا ہے نا بس وہی کسی گوری سے کر لی ہوگی اور آنٹی خوامخواہ ہی اس کی فکر میں دبلی ہوئی جارہی ہیں۔" زوہا کوئی یار آیا تو اس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
 "جی نہیں، ان کا بیٹا واپس آ چکا ہے ۔چھ سال پہلے وہ پڑھنے کے لئے اپنے ماموں کے پاس انگلینڈ گئے تھے ۔"اریبہ نے معلومات  فراہم کی پھر یکدم پرجوش ہوئی ۔
"ہائی زوہا باجی !میں نے ابھی سے کپڑے سوچنا شروع کر دیے ہیں۔ ہیں مہندی، ہندی بارات۔۔۔۔۔۔۔ 
اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی زوہا اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے عالیا بیگم کے کمرے کی جانب بڑھی۔دروازہ کھولتے ہی وہ جائے نماز لپیٹتی اسے نظر آئی تو وہ ان کے قریب رکی۔
"امی مجھے شادی نہیں کرنی ۔آج صوفیا آنٹی کو انکار کر دیں ۔"
عالیہ بیگم نے بغور اس کے تپے چہرے کو دیکھا۔
"کیوں نہیں کرنی "
"آپ جانتی ہیں اس کا جواب ۔"زوہا نے انہیں جن نظروں سے دیکھا وہ نگاہیں چراگئیں۔
"بس کر دو زوہا !کب تک لکیر پیٹتی رہو گی۔ہر ایک راستے ، تجربات سب سے بڑھ کر نصیب الگ ہوتا ہے۔ "انہوں نے نرمی سے سمجھانا چاہا مگر سامنے زوہا تھی جو سوچ لیتی اس سے پیچھے نہ ہٹتی تھی۔
"امی پلیز، پلیز آپ کو کیا ملا شادی کرکے سوائے ان دکھوں اور پریشانیوں کے، کے اس ذلت کے جو آپ نے سہی۔"زوہا کی بات پر انہوں نے طویل سانس لیا۔ یہ کاش کے ان کی مرحومہ بہن زوہا کو ان کی زندگی کا سچ نہ بتاتی ۔
"میری زندگی میں تم ہو زویا!  یہی کافی ہے ۔"
"اور میری زندگی امی، میں باپ کے ہوتے ہوئے یتیموں کی طرح زندگی گزار دی ہے میں نے ۔کوئی ایسی اولاد بھی ہوگی جسے باپ کے مرنے کی خبر اخبار میں پڑھنے کو ملے اور تب اسے بتایا جائے کہ یہ تمہارا باپ ہے جو تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہیں چھوڑ چکا تھا ۔"
"بس کرو زوہا !"وہ ہمیشہ ہی اس قصے سے پہلو تہی کر جاتی تھی ۔
"آپ کو پتہ ہے ان کا بیٹا کس شان سے اپنی باپ کی کرسی پر بیٹھتا ہے اور میں زوہا عزیز امیرکبیر باپ کی بیٹی ،بسوں میں روز دھکے کھاتی ہوں۔ان کے بیوی بچے میرے حق پر قابض ہیں۔ "شدت جذبات سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا، تھا کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولی ۔
"آپ صوفیہ آنٹی کو انکار کر دیں ۔مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی ۔
اسے اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھے دے کر وہ تیز قدموں سے اس کی جانب بڑھا تھا ۔
"اچھا تو یہاں بیٹھی ہیں آپ، میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا ۔"دوستانہ انداز میں بولتا ہے وہ اس سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا ۔وہ بے اختیار چونکی ۔
"اس دن آپ خواہ مخواہ  خفا ہو گئیں حالانکہ میرا مقصد ہرگز آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔"
"آپ۔۔۔۔۔۔ آپ میں بھلا آپ سے خفا کیوں ہو گئی۔میں تو آپ کو جانتی تک نہیں ہوں۔"پہچاننے کے ساتھ وہ برا بھی مان گئی تھی۔
اس کے معصوم سے چہرے پر خفگی کے تاثرات دے کر عماد کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

"اس میں کیا مسئلہ ہے، ہے میں اپنا تعارف کروا دیتا ہوں۔ ہو میرا نام عماد ہے اور میں برسر روزگار ہوں۔اب آپ اپنا تعارف کروائے، آپ کا نام ؟
"آمنہ ۔"اس کے منہ سے نکلا ۔
"آمنہ۔ ہوں،بہت پیارا نام ہے، کس نے رکھا ؟"
"آپ پلیز یہاں سے جائیں، آئی میں اکیلے بیٹھنا چاہتی ہوں۔" اسے اس کی بے تکلفی پسند نہیں آئی تھی ۔
"جی تو مس آمنہ ! بات یہ ہے کہ اکیلے بیٹھنے سے انسان مزید تنگ ہو جاتا ہے جو کہ آپ ہو چکی ہیں اور ایک بار میں آپ کو بتا دوں، دو دوستوں کو جتنا منع کریں وہ شدت سے وہی کام کرتے ہیں جیسے کہ میں آپ کے باوجود یہیں بیٹھا رہوں گا ۔
اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ وہ اس کی آواز کی سمت کا اندازہ کرتی اس کی جانب گھومی۔
"ہم دوست کب بنے؟"
"ہماری دوستی تو پچھلی ملاقات میں ہی ہو گئی تھی ۔"
"ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔" وہ پھر سے سامنے کے رخ پر بیٹھ گئی ۔آواز دھیمی ہوئی۔
"میری کسی سے دوستی نہیں، نہیں کوئی مجھ سے دوستی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ پتا نہیں مجھ سے محض ہمدردی کرتے ہیں۔ "اس نے لب کاٹے ۔
"چلیں ،ایک بات تو ہم میں کامن ہے،میرے بھی زیادہ دوست نہیں ہیں۔"
"میرا کوئی دوست نہیں ہے ۔"اس نے کہا ۔
"میرے ہوتے ہوئے آپ یہ نہیں کہہ سکتی۔" وہ مسکراتی آواز میں بولا ۔
" چلیں اپنے بارے میں بتائیں ،آپ کیا کرتی ہیں ۔"
"میں پڑھتی ہوں ہوں مگر پڑھنے کا دل نہیں چاہتا۔وہاں میرا دم گھٹتا ہے ۔میرا دل چاہتا ہے ،میں کہیں نکل جاؤں ۔مجھے رنگ اچھے لگتے ہیں، میں رنگ دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان سے کھیلنا چاہتی ہوں۔ اس کے چہرے پر شو کو حسرت کے رنگوں گویا ایسے ساتھ اتر آئے تھے ،کاش وہ اپنے چہرے پر حیدر رنگوں کو دیکھ سکتی ۔"
"بچپن میں، میں بہت پینٹنگ بنایا کرتی تھی ۔مجھے شروع سے رنگوں سے عشق تھا ۔بہت عرصے بعد وہ یوں کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھی ۔
"پھر۔۔۔۔۔۔۔۔میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔ میری بینائی چلی گئی ۔میرے بچپن کا خواب میرے بچپن کی طرح کہیں کھو گیا ۔"اس کے چہرے پر اداسی کے کتنے ہی رنگ بکھر گئے تھے ۔عماد خاموشی سے اسے تکتا اس کی باتیں سنتا رہا ۔
غصے سے مٹھیاں بھینچتی وہ چھوٹے سے باورچی خانے کے باہرٹہل رہی تھی ۔اریبہ نے تیسری مرتبہ کھڑکی سے جھانک کر اسے دیکھا مگر اس بار وہ بولے بنا رہ نہ سکیں ۔
"کون سی مارچ میں حصہ لینے والی ہیں زوہا باجی !اس سے بہتر ہے آکر میری تھوڑی سی مدد ہی کروا دیں ۔اگر آپ کے سسرال والے آرہے ہیں ۔"اپنے آخری الفاظ پر وہ خود ہی پچھتائی۔یہ تو جلدی پڑھانے والی بات ہوئی اور زوہا کو تو گویا آگ ہی لگ گئی ،وہ تیزی سے باورچی خانے کے دروازے میں آ کھڑی ہوئی ۔خونخوار نظروں سے اریبہ کو گھوراجواب سر نہیں اٹھا رہی تھی ۔
"وہ میرے سسرال والے نہیں ہیں ۔"الفاظ چبار چبار کر ادا کیے۔
"متوقع ،اوپس۔"اریبا کی زبان پھر سے پھسلیں تو لمحے بھر کے لئے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
"وہ خالہ امی کہہ رہی تھی ۔"جلدی سے بات سنبھالی ۔
یہ عالیہ بیگم ہیں تو تھی جنہوں نے اسے خاموش کروا دیا تھا اور اس کی سخت ہدایت کی تھی کہ وہ مہمانوں کے سامنے کوئی الٹی سیدھی بات نہ کرے ۔آج اتوار تھا اور صوفیا آنٹی اپنے انگلینڈ پلٹ بیٹے کے ساتھ ان کے گھر آ رہی تھی ۔
زوہا نے اندر آ کر حیرانی سے لوازمات کو دیکھا۔رول،سموسے،ایک اور پٹھوں کا آمیزہ جو اریبا تیزی سے بنا رہی تھی۔
صوفیا آنٹی ہی آرہی ہیں/اتنے اہتمام کی کیا ضرورت ہے وہ پہلے بھی تو آتی رہی ہیں۔"اس کے منہ سے نکلا۔
اس حیثیت سے تو کبھی نہیں آئی اور حمزہ بھائی بھی تو آ رہے ہیں۔"اریبہ کا مسکرانا سے سخت ناگوار گزرا۔
"اور اس خرچے کیلئے پیسے کہاں سے آئے۔"
"خالہ امی کو کمیٹی کے پیسے ملے ہیں اور کل تو سلائی کے پیسے بھی ملے ہیں ۔اس لیے ابھی وہ خاصی امیر ہو چکی ہیں ۔"
"ان ذرا سے پیسوں سے کوئی امیر نہیں ہوتا ۔"وہ طنزیہ انداز میں بولی۔
"ہم دونوں سے تو امیر ہی ہوئی نا۔"اریبہ کھل کر مسکرائی ۔وہ اپنے حال میں خوش تھی ، زوہا اسے دیکھ کر رہ گئی ۔
کچھ دیر میں صوفیا آنٹی آن پہنچی ۔ اریبا نے پھرتی سے پکوڑے تلے، ایک نظر کچھ سوچتی ہوئی زوہاپر ڈالی ۔
"کپڑے بدل لیے ہیں تو چہرہ بھی سجا لیں ۔"
بلکہ میرا ایک کام کرو ۔"اسی وقت اطلاعی گھنٹی بجی ۔
"حمزہ بھائی ہوں گے ۔"اریبا نے جلدی سے ڈوپٹہ درست کیا ۔زوہا اسے روک کر کان میں سرگوشی کرنے لگی پھر نہ کرتی اریبا کو باہر کی جانب دھکیلا۔
ماما کے بتائے پتے پر وہ باآسانی پہنچ گیا تھا ۔ابتدائی گھنٹی بچاتے ہوئے وہ اطراف کا جائزہ لینے لگا ۔یہ چھوٹا سا محلہ کافی صاف ستھرا تھا ۔
"کون ہیے؟"اندر سے آتی آواز پر وہ متوجہ ہوا ۔
"جی میں حمزہ سرفراز ۔"
"آں ہم کسی حمزہ کو نہیں جانتے ۔"جٹ سے جواب آیا ،حمزہ نے ایک نظر گلی پر ڈالی ،پتا تو یہی تھا ۔
"یہاں کون رہتا ہے َ؟"
"یہاں کوئی زوہا باجی نہیں رہتیں ۔" بے ساختگی میں اریبہ کے منہ سے پھسلا۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ،باہر کھڑا حمزہ پہلے ٹھٹکاپھر اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"لیکن میں نے تو آپ کی زوہا باجی کے بارے میں نہیں پوچھا "
"مارے گئے ۔ؔایک تو یہ زوہا باجی کے الٹے سیدھے کام۔
'میں ماما کو کال کرتا ہوں ،وہی صحیح پتہ بتائیں گی ۔"اس کی خاموشی بڑی اس نے مثنوی سنجیدگی سے کہا تو اریبہ نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا ۔
"ارے حمزہ بھائی میں ،میں تو مذاق کر رہی تھی ۔آپ بالکل ٹھیک پتے پر پہنچے ہیں ۔"مسکراہٹ چہرے پر پھیلاتے ہوئے اس نے خود کو کوسا جو زوہا کے کہنے پر اسے یہاں سے ٹالنے کے ارادے سے آئی تھی ۔
"آپ یقین اریبا ہیں ۔"اس نے سر ہلایا ،پھر اسے اندر کا راستہ دکھاتے ہوئے وہ جلدی سے کچن میں گھسی ۔
"بس زوہا باجی مجھے کچھ مت کہئے گا ۔آج تو آپ نے مروا دیا تھا ۔اعلیٰ میں کتنی خفا ہوتی ایسی حرکت کرنے پر ۔"اریبا روہانسی آواز میں بولی ۔
"تم سے پہلے کبھی کچھ ہوا ہے جواب ہوگا ۔"زوہا نے اسے گھورا ۔وہ حمزہ کو اندر کی جانب جاتے دیکھ چکی تھی ۔
"اس سے تو میں خود نبٹوں گی۔" چائے کی پیالیاں ٹرے میں رکھتی وہ بولی تو اریبا کان لپیٹے دوسری ٹرے سیٹ کرنے لگی۔
عالیہ بیگم کی کسی بات کا مسکرا کر جواب دیتے ہوئے اس کی نظر غیر ارادی طور پر اندر آ کر سلام کرتی زوہا کی جانب اٹھی ،وہ سلیقے سے دوپٹہ اور ہوئی تھی ۔صوفیا بیگم سے مل کر وہ اب میز کے قریب بیٹھ کر چائے کپوں میں ڈالنے لگی ۔ایک پیالی اس نے غیر محسوس انداز میں پیچھے کی تو اس کی حرکت نوٹ کرتا حمزہ ٹھٹکا۔نگاہ پھیرنے کے بجائے پر غور اس کے چہرے کا جائزہ لیا جس پر غیر معمولی سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی ۔اس کے انداز میں کہیں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔دونوں خواتین کے آگے چائے رکھ کر اس نے الگ کی گئی پیالی میں چائے ڈالی اور چینی ڈال کر ہلاتے ہوئے بڑے اعتماد سے اٹھ کر اس کے آگے رکھی ۔
"لیجئے۔" ساتھ میں اس کی جانب دیکھا اس کی بڑی بڑی آنکھیں بہت خوبصورت تھی اور خاصی پرکشش بھی مگر اس کے انداز خاصے خطرناک تھے ۔
"شکریہ۔"اس کے واپس بیٹھتے ہیں حمزہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔
"آنٹی پہلے آپ لے نا۔"اپنی چائے کی پیالی عالیہ بیگم کو پیش کی ۔
"آپ لو نا بیٹا ۔"
"جی ،آپ لیں میںں لیتا ہوں۔" اس نے ہاتھ پیچھے نہ کیا تو عالیہ بیگم کو پیالی تھا منی پڑی۔ان کی پیالی اٹھا کر وہ اپنی جگہ واپس بیٹھا اور مسکراتی نظروں سے خود کو گھورتی زوہا کو دیکھا۔زوہانے تپ کر نگاہ پھیری ۔انڈیا بیگم پیالی منہ کے قریب لے کر جا رہی تھی ،وہ بوکھلا کر جلدی سے اٹھی ۔
"امی !اس میں کچھ گر گیا ہے ۔"شاید نے دوسری چائے دیتی ہوں آپ کو ۔ساتھ ہی اریبہ کو اشارہ کیا تو وہ بھاگ کر پیالی لے آئی۔
"آنٹی میں یہاں آ رہا تھا تو باہر کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگ یہاں نہیں رہتے ۔"بظاہر سنجیدگی سے بولتے وہ عالیہ بیگم سے مخاطب ہوا ۔سموسوں کی پلیٹ ان کے آگے رکھتی اریبا نے تھوک نگلا۔زوہا نے خونخوار نظروں سے گھورا۔ 
"اچھا ! ہم تو کافی عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں ۔" وہ حیران ہوئیں۔ حمزہ نے  زوہا  پر نگاہ ڈالی جس کے چہرے پر غصے کی سرخی پھیلی ہوئی تھی ۔
"عالیہ! میرا خیال ہے کہ بچوں کو بات کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔"صوفیہ بیگم کے کہنے پر عالیہ بیگم نے سر ہلایا ۔یقیناً وہ دونوں پہلے سے طے کئے بیٹھی تھی ،دونوں کو اٹھتے دیکھ کر قریب ابھی اپنی جگہ سے اٹھی تو صوفیہ بیگم نے اسے روکا ۔
"تیم بھی بیٹھو بیٹا۔"
ان کے جاتے ہیں  زوہااس کے بالکل سامنے بیٹھ گئی جو محظوظ سا پکورا کھا رہا تھا ،ساتھ میں چائے کے گھونٹ بھی بھررہا تھا ۔اریبہ بھی ایک طرف ٹک گئی۔
"کچھ سمجھ میں آیا آپ کو کہ یہاں کیا چل رہا ہے ۔" زوہا نے تیکھے تیوروں سے اسے دیکھا۔
"ہماری امیاں خاصی ماڈرن اور براڈ مائینڈڈ ہو گئیں ہیں۔"اس کے مزے سے کہنے پر زوہاکو مزید تاؤ آیا ۔
"جو شخص منٹوں میں یہ جان لے کہ اس کی پیالی میں کچھ ملایا گیا ہے ،وہ یقینا ان سب حرکتوں کا مطلب بھی سمجھ گیا ہوگا ۔"
"پر میں تو نہیں سمجھا ۔"وہ بظاہر معصومیت سے بولا ۔
"میں سمجھا دیتی ہوں ،مجھے شادی نہیں کرنی ،اس لیے اپنا وقت برباد نہ کریں۔ " زوہا نے صاف الفاظ میں کہا ۔
اریبا نے حمزہ کے تاثرات دیکھے جو نارمل تھے ۔
"آپ نے تو میرا مورل ہی گرا دیا،میرا تو خیال تھا کہ میں خاصہ اسمارٹ ہوئے ہینڈسم ہوں۔کوئی لڑکی انکار کرتے ہوئے بھی سو بار سوچے گی،پر آپ تو فورا        ً ہی آؤٹ کر رہی ہیں۔"مصنوعی افسردگی سے بولتے ہوئے اس نے اریبہ کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔
"ٹھیک کہہ رہا ہوں نا۔"اس نے جھٹ سے سر ہلایا مگر زوہاکے گھورے پر مسکراہٹ کا گلا گھونٹا۔
"میں جو بھی کر رہی ہوں میری مرضی۔آپ بس یہ سمجھنے کہ مجھے شادی نہیں کرنی ہے۔"
"جب لڑکی اپنے منہ سے انکار کر رہی ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ کسی اور میں دلچسپی لے رہی ہے۔ایسا ہی ہے کیا۔"اب کی بار اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"آج کی لڑکی اپنے منہ سے جو کہہ رہی ہوتی ہے،اس کا وہی مطلب ہوتا ہے۔بہتر ہوگا آپ خود ہی انکار کردیں کیونکہ شادی تو مجھے کرنی ہی نہیں چاہیے وہ آپ ہو یا کوئی اور۔"
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا دونوں خواتین اندر آ گئیں۔


جاری۔۔۔

اس ناول کے 2 سے 3 پارٹ ہوں گے اور اس کا دوسرا پارٹ اس تاریخ کو شائع کیا جائے گا  اور دوسرے پارٹ کا لنک یہاں پر دے دیا جائے گا۔ آپ اس لنک پر کلک کر کے دوسرا پارٹ پڑھ سکتے ہیں ۔ شکریہ!

کیا آپ بھی روزمرہ  کھانا پکانے  کی ٹینشن میں مبتلا ہیں اور آپ کو یہ مسائل پیش آرہے ہیں کہ آج کیا بنائیں تو آپ کی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے ہم آپ کے لیے اردو لینگوئیج میں مختلف ریسپیز لے کر آئے ہیں  ۔ اگر آپ اردو  لینگوئیج میں مزیدار ریسپیز سیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں اس لنک FodiesUrپر کلک کریں  جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔


کیا آپ روزمرہ زندگی  کے کاموں کو آسان بنانا چاہتی ہیں اور اپنی زندگی میں آنے والی بہت  سے مسائل سےبچنا چاہتی ہیں یا صحت کےمطلقہ آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟  تو ہمارے دئیے گئے اس لنکfodiesDailytips پر کلک کریں اور صحت اور روزمرہ کاموں کے ٹوٹکیں پڑھیں جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔


اگر آپ ہمارے سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں ،ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا ہماری سروسز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یہاںfodiesAboutContact پر کلک کریں۔

اگر آپ ہماری ریسپیز کو انگلش یا میسج لینگوئج میں پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنکس پر کلک کریں۔
 For Message Language  fodiesHindi
For English Language fodiesEng
You are Reading Totkay in Urdu.
If You Want To Read The Recipes in English OR Hindi Then Click Below The Links.

ThankYou!

No comments:

Post a Comment

If you have any trouble with fodiesurmagzine. Please Let us know...