ڈیڑھ چھٹانک کا آدمی

ڈیڑھ چٹانک کا آدمی  FodiesUr Magzine
ڈیڑھ چھٹانک کا آدمی:

بابا جی کہا کرتے تھے ہم ظاہر بین لوگ ہیں، ہم دوسروں کا صرف ظاہری وزن دیکھتے ہیں ظاہری وزن کا مطلب ہے انسان کا 
ظاہری شخصیت ،اس کی سماجی حیثیت، مرتبہ، دولت ، اثر و رسوخ ، ضرر رسانی  کی صلاحیت وغیرہ ۔لیکن بندے کا اصل وزن اس کے باطن سے تشکیل پاتا ہے۔ باطن سے مراد انسان کا خلوص نیت ،حرص و ہوس سے پاکیزگی، نیکی کا جذبہ اور حسن سلوک ہے ۔


وزن تین من ہو لیکن اس کا اصلی وطن پاؤں بھی نہ ہو، آپ نے ایسے دولتمند بھی دیکھے ہوں گے جن کی زندگی کا محور ہیں صرف دولت ہوتا  ہے ۔ ان کی دوستی ،رشتہ داری، تعلق محض دولت سے ہوتا ہے ۔اور اپنے ان قریبی عزیزوں درینہ دوستوں اور رشتہ داروں کو  حقیر سمجھ کر درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔جن کا دامن دنیا کی دولت سے پہلے تہی ہوتا ہے وہ اگر ان کو پہچاننے سے انکار بھی کرے تب بھی ان سے نظریں چراتے اور سرد مہری سے برتتے ہیں۔آپ نے ایسے بڑے عہدے اور مرتبے والے لوگ بھی دیکھے ہونگے جو اقتدار یا اختیار کی کرسی پر  کرسی پر بیٹھتے ہیں پرانے دوستوں رشتہ داروں اور عزیزوں سے نظریں پھیر لیتے ہیں۔ دراصل یہ غرور اور تکبر کی علامتیں ہیں، اور یہی انسان کے کردار کو ناپنے کا صحیح پیمانہ ہے، اسی لیے دولت اور عہدے اقتدار اور اس رسول کو آزمائش کہا جاتا ہے۔ آزمائش کے لیے کہ اس وادی میں قدم رکھتے ہی انسان کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔مجھے زندگی میں لاتعداد لوگوں سے پالا پڑا اور بہت بڑی اکثریت کو حالات کے مطابق بدلتے دیکھا ۔جو انسان حالات بدلنے کے باوجود اپنی اصل پر قائم رہے ،اپنا رویہ، خلوص اور اخلاق نہ بدلے اور تکبر کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیں، وہ دونوں جہانوں میں عزت پاتا ہے۔ اللہ کے ہاں اس کا بڑا وزن ہے۔ لیکن جو شخص وقت بدلتے ہی بدل جائے وہ دونوں جہانوں میں اپنا وقار کھو دیتا ہے۔ باطن میں غرور اور تکبر کے بیج اس وقت پھلنا پھولنا شروع ہوتے ہیں جب شیطان انسان کو یہ باور کرا دیتا ہے، کہ یہ سب اس کی اپنی محنت ذہانت اور کاریگری کا پھل ہے یہی احساس کے اندر احساس برتری اور پھر تکبر کا بیج بوتا ہے۔ جس کی شیطان آبیاری کر کے رہتا ہے ۔حتیٰ کہ وہ اپنے تمام رشتہ داروں سے کٹ جاتا ہے۔ میرے ایک مہربان جن سے دوستی کئی دہائیوں پر محیط تھی، درمیانے درجے کے سرکاری ملازم تھے۔ ان کا زیادہ وقت افسر شاہی سے تعلقات بنانے میں گزرتا تھا۔ اچانک ان کا سویا ہوا مقدر جاگا اور انہیں ایک اعلی عہدے پر بیٹھا دیا گیا۔ اب یہاں سے ان کی اصلی شخصیت کی آزمائش شروع ہوئی۔ لاکھوں میں تنخواہ اور سرکاری مراعات کی بارش میں وہ ماضی کو بھلا کر بلندیوں پر جا بیٹھے۔ دیرینہ دوستوں اور کمتر عزیزواقارب کو حقیر سمجھنے لگے ،مجھ سے ایک روز ایک مشترکہ دوست نے پوچھا کیا ان سے رابطہ یا ملاقات ہے میں نے مسکرا کر جواب دیا نہیں، عہدے اور پیار کے ترازو میں تولو تو بہت ہلکا پایا دوبارہ ملنے گیا تو ان کے رویے گفتگو اور سلوک میں تکبر کی جھلک نظر آئی، چنانچہ میں نے خاموشی اور لاتعلقی اختیار کرلی۔ درسِ زندگی میں کسی شے کو کو بھی ثبات نہیں۔ تعلقات، رشتے داریاں،دوستیاں حتٰی کے مفادات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ جن کا باطن دنیاوی آلائشوں اور حرص و ہوس سے پاک ہوتا ہے وہ عام طور پر نہیں بدلتے۔ اسی خاصیت کو خلوص کہا جاتا ہے۔ ہم دنیا دار بھی عجیب ہیں کہ جسے دولت ، اثرورسوخ، سماجی مرتبہ یااقتدار و اختیار ملتا ہے۔ اس کے چاروں طرف مکھیوں کی مانند بھنبنانے لگتے ہیں ۔لیکن دل ان کے احترام سے خالی ہوتا ہے۔ یادش بخیرمیں ایک صاحب کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ میو ہسپتال میں میڈیکل آفیسر تھے،پھر رجسٹرار بنےنہایت مودب سعادت مند اور مخلص انسان تھے۔ کئی مقامات پر انہیں ضرورت پڑی تو میں نے ان کی مدد کی جس سے ان کی کام بہتر ہوئے ۔کئی برس سے ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ وہ صبح و شام دو ہسپتالوں میں مصروف رہتے تھے ۔ چند برس قبل میرے گھٹنے میں درد تھا تو کسی مشترکہ مہربان نے علاج کے حوالے سے ان کا ذکر کیا خیال آیا کہ وہ تو برخود دار ہیں انہیں فون کیا اور اپنی تکلیف کا ذکر کیا ،تو وہ نہایت کاریگری سے ٹال گئے تو پتہ چلا کہ وہ ترقی پاتے پروفیسر بن چکے ہیں۔ دوسرے پروفیسروں کی مانند ہر شام نوٹوں کا تھیلا بھر کر گھر لے جاتے ہیں۔ شاندار بنگلہ تھا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ میں نے ریٹائر ہو کر ان کے لیے ناکارہ ہو چکا تھا ان کا ظاہری وزن ڈیرھ من تھا لیکن جب باتیں کے ترازو پر تولے ڈیڑھ چھٹانک نکلااسی طرح میرے دوست صحافی تھے جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ رکشے کا کرایہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اپنی کاریگری کے سبب تین دہائیوں میں ارب پتی ہو گئے۔جب کہ ان کے پرانے ساتھی ابھی تک ہزار پتی ہیں۔مالی خوشحالی اقتدار کی قربت اور موقع پرستی نے ان کے لب و لہجے میں تکبر، احساس برتری پیدا کردیا ہے۔
جب تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے تو کوئی دعا قبول نہیں کی جاتی (احادیث صحیہ) 
خدارا ہمیں مسلمان ہی رہنے دومیرے پیارے بنی ﷺ کو تو پوری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن اور سنت رسولﷺ کے مطابق کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ، جب تک وہ اپنے اہل وعیال ، اپنے والدین ، اپنے مال حتٰی کہ اپنی جان سے زیادہ محمد ﷺ سے محبت نہ کرے۔ نبی ﷺ تو ہمارے لیے اتحاد، یگانگت اور بھائی چارے کا نمونہ ہیں مگر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اہم اپنے نبی ﷺ سے محبت کے اظہار پر بھی ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں۔
گزشتہ برس کی بات ہے 12 ربیع الاؤل کے روز ملنے والے موبائل پیغامات سے مجھے احساس ہوا جیسے ہر پیغام بھیجنے والا کوئی عالم فاضل  مفتی ہو۔ زیادہ تر پیغامات اگرچہ عید میلادالنبی ﷺ کے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بحث جاری تھی کہ ہمیں 12 ربیع الاؤل منانا  بھی چاہیے کہ نہیں؟ اس موقع پر بازاروں میں یا ہمسایوں میں تقسیم  کیے جاے والے کھانے کے متعلق بھی فتوے صادر کیے جا رہے تھے۔ بات یہ بھی کی جارہی تھی کہ آیا12 ربیع الاؤل نبی ﷺ کی پیدائش کا دن ہے بھی کہ نہیں۔ کیا عیدیں دو ہیں یا تین؟ کسی نے اس عمل کو بدعت جانا تو کس نے اپنے ایمان کا حصہ۔ جس بحث کو ایک محدود حلقہ میں ہونا چاہیے اُسے ہم نے موبائل پیغامات کے ذریعے گھر گھر تک پھیلا دیا ۔ فتوے پر فتوے دئیے جا رہے تھے۔ ایک قرآن ، ایک نبی ﷺ کو ماننے والے ایک دوسرے کے خلاف نبی ﷺ سے محبت کا اظہار کے طریقہ کار پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت  پھیلا رہے تھے۔ افسوس کہ حکومت تماشا دیکھ رہی ہے جب کہ ایک بہت بڑی تعداد میں علماء اس تقسیم در تقسیم کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان دنوں طارق اسمعیل ساگر کی تازہ تصنیف"مجھے کھا گئے" پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ لاہور کے متعلق اپنے بچپن کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر وہ لکھتے ہیں : لاہور کے داخلی دروازے یعنی پہلی جاگی کے ساتھ موجود پھلوں ، پھولوں جنگلات اور دریا  والی اس بستی راوی روڈ کی تباہی کا آغاز 1965ء میں ہوا جب ایک روز ہمیں علم ہوا کہ یہاں مارکیٹ بنے گی۔ اچانک ہی ہمارے گھر کی دیورا سے لگے پھولوں کے سالوں پرانے پودے کٹنے لگے۔ ٹریکٹر چلنے لگے، ہمارے نزدیک مسجد شاید صرف بادشاہی مسجد ہی تھی۔ جس میں ہمم سب عید کے روز اکٹھے ہو کر نماز پڑھنے جاتے یا پھر مارکیٹ میں وہ پُر امن مسجد جہاں ہم نماز پڑھا کرتے تھے۔ دھماکہ پروگرام کا آغاز آغا علامہ صاحب نے کیا اور ہمیں علمم ہو ا  کہ ہم تو سنی ہیں جبکہ ہم آج تک خود کو مسلمان ہی سمجھتے  رہے۔ جب ہمارے پچھواڑے میں ملک مرحوم نے مسجد بنائی تو علم میں اضافہ ہوا کہ ہم حنفی ،دیوبندی ہیں۔ اس طرح مزید مسجدیں بنیں مزید فرقے بھی سمجھ میں آئے اور یہ بھی علم ہوا کہ اصل میں اہل سنت والجماعت مولوی کی مسجد میں نماز پڑھنے والے ہی مسلمان ہیں ، کیونکہ یا رسول ﷺ نہیں کہتے۔  اسی طرح  اہل الحدیث اور دیوبندی  مولوی کی مسجد میں نماز پڑھنے والے ہی مسلمان ہیں ، باقی سب گمراہ اور منافق ہیں ۔میں ذاتی طور پر ساگر صاحب کو نہیں جانتا مگر یہ سچ ہے کہ علماء اور مولانا حضرات کی ایک بڑی تعداد نے ہم سے ہماری مسلمانتی کو چھین کر ہمیں فرقوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے اس کام میں وہ اب بھی لگے ہوئے ہیں مگر انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو فرقہ بندی کی سخت ممانعت کی ہے مگر ہماری پہچان ہی فرقوں کو بنا دیا گیا ہے۔ یہ کیسی مسلمانیت ہے؟ یہ بنی ﷺ سے کیسے محبت ہے؟ ہماری حالت کا اگر آپ کو اندازہ لگانا ہوتو میرا یک ذاتی تجربہ سنئے ۔ جب سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا انتقال ہوا تو اپنے علاقہ کیا ایک مسجد کے مفتی صاحت کو میں نے درخواست کی کہ قاضی صاحب   کے لئے دُعا کی جائے۔ میں خصوصی طور پر اسی مسجد اور انہی مفتی صاحب کے پیچھے تقریباً دو دن باجماعت نماز ادا کرتا رہا مگر انہوں نے ایک مرتبہ بھی قاضی صاحب کے لیے دُعا نہیں کروائی۔ ہمارا دین تو ایک عام کلمہ گو کے مرنے پر اس کی مغفرت اور مشرکوں کے لیے ہدایت تک کے لیے دُعا کرنے کی تعلم دیتا ہے مگر مجھے اس بات کا افسوس ہوا کہ ایک مفتی جس نے قرآن کو پڑھا، جو اپنی تقریروں میں نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی تعلیم دیتا ہے اُسے کس چیز نے اتنا سنگدل بنا دیا ۔ میں مختلف مساجد میں نماز کے لیے جاتا ہوں ، میں نے اگر مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹنے والے مولویوں ، مفتیوں وغیرہ کو دیکھا تو میں نے ایسے علما ئے کرام اور مفتی حضرات کو بھی دیکھا جو فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے اور برداشت کا سبق پڑھاتے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کی نماز میں جس مسجد میں ادا کی اُس مفتی صاحب کو میں نے ایسے ہی علماء میں پایا جو مسلمانیت کی بات کرتے ہیں ، جو فرقہ بازی سے منع کرتے ہیں،  جو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف فروعی اختلافات کی بنیاد پر فتوٰی بازی سے روکتے ہیں۔ کاش ہمارے علمائے کرام اور ہماری حکومت ہر گلی کوچہ میں لگی فتویٰ بازی کی فیکٹریوں کو بند کریں اور یہ کام صرف اور صرف کچھ مخصوص اداروں مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ کو دے دیا جائے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم مزید فرقوں میں بٹتے رہیں گے۔ افسوس ہم سب محمدﷺ سے محبت کا دعوٰی تو کرتے ہیں مگر اس عظیم ہستی کی تعلیمات اور سنت پر عمل کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں۔



کیا آپ بھی روزمرہ  کھانا پکانے  کی ٹینشن میں مبتلا ہیں اور آپ کو یہ مسائل پیش آرہے ہیں کہ آج کیا بنائیں تو آپ کی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے ہم آپ کے لیے اردو لینگوئیج میں مختلف ریسپیز لے کر آئے ہیں  ۔ اگر آپ اردو  لینگوئیج میں مزیدار ریسپیز سیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں اس لنک FodiesUrپر کلک کریں  جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔

کیا آپ روزمرہ زندگی  کے کاموں کو آسان بنانا چاہتی ہیں اور اپنی زندگی میں آنے والی بہت  سے مسائل سےبچنا چاہتی ہیں یا صحت کےمطلقہ آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟  تو ہمارے دئیے گئے اس لنکfodiesDailytips پر کلک کریں اور صحت اور روزمرہ کاموں کے ٹوٹکیں پڑھیں جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔


اگر آپ ہمارے سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں ،ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا ہماری سروسز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یہاںfodiesAboutContact پر کلک کریں۔

اگر آپ ہماری ریسپیز کو انگلش یا میسج لینگوئج میں پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنکس پر کلک کریں۔
 For Message Language  fodiesHindi
For English Language fodiesEng
You are Reading Totkay in Urdu.
If You Want To Read The Recipes in English OR Hindi Then Click Below The Links.

ThankYou!


No comments:

Post a Comment

If you have any trouble with fodiesurmagzine. Please Let us know...