Meri Talab ka Chand part 2 میری طلب کا چاند پارٹ نمبر 2



اگر آپ اس ناول (میری طلب کا چاند ) کا پہلا پارٹ part 1  پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاںMeri Talab ka Chand Part 1 پر کلک کریں۔

میری طلب کا چاند پارٹ2

اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا دونوں خواتین اندر آ گئیں۔

"کیوں بچوں کوئی بات بنی۔"صوفیہ بیگم شرارت سے بولی تو زوہانے محض بلکہ جھکا لیں جب کہ حمزہ نے پورا منہ میں ڈالا۔

"آنٹی یہ پکوڑے بہت مزے دار ہے،اب تو میں یہ کھانے کے لیے اکثر آیا کرونگا۔"حمزہ نے خوش مزاجی سے کہا۔زوہا نے بے اختیاری سے اسے دیکھا مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا ۔عالیہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا ۔

"ضرور آنا بیٹا !تمہارا اپنا گھر ہے ۔"اڈیبائر آنسی حمزہ کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ اس نے صاف الفاظ میں زوہا باجی نے انکارکیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور زوہا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کوئی چیز اٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کا سر پھاڑ دے ۔

                                          


پاپا کے دفتر میں قدم رکھتے وہ ٹھٹکی ،مما اور پاپا بیچ بیٹھا ایان عزیر اس کی نظر کا دھوکہ نہیں تھا ۔

"ارے ہماری بیٹی آئی ہے ۔آجاؤ پریسہ ۔"پاپا کے پکارنے پر وہ آگے بڑھی اور پاپا کے قریب بیٹھ گئی ۔ایان نے رسمی انداز میں حال احوال پوچھا۔

"ایان اس پروجیکٹ کی فائل کی خوبی میں منگوا دیتی ہوں ۔نیکسٹ میٹنگ میں پھر اس کے باقی پوائنٹس ڈسکس کر لیں گے ۔"مما لیپ ٹاپ کی سکرین کی جانب دیکھتی مصروف سے انداز میں بولیں۔

"اوکے آنٹی ۔"ایان انہی کی طرف متوجہ تھا ۔

"اب آپ کو بس کر دیں یہ لنچ ٹائم ہے ۔"پاپا نے مداخلت کی ۔

"ٹومنٹس ، یہ میل بہت ضروری ہے ۔"

"آپ کو تو خبط ہے کام کا، یہ تو اچھا ہوا میں نے اپنی بیٹی کو بلا لیا ۔" مسکرا کر بولتے وہ پریسہ کی جانب مڑے۔

"اسپیشل لنچ آرڈر کیا ہے تمہارے لیے ۔"وہ مسکرائی ۔

"تھینکس بابا !اسی لئے تو فوراً آپ کی کال پر سب چھوڑ چھاڑ کر آ گئی ۔

"دیکھا آپ نے ہم باپ بیٹی کا پیار ،وہ اپنے سارے کام چھوڑ کر بھاگی چلی آئیں اور آپ ابھی تک مصروف ہیں کام میں۔"ان کے شکایتی انداز میں مما نے لیپ ٹاپ کی سکرین بند کر کے ،مسکراتے ہوئے اپنی عینک اتاری،بولیں کچھ نہیں۔

"انکل! آپ آنٹی کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ۔شی از پروفیشنل اینڈ آئی لائک اٹ ۔کام سے زیادہ ضروری کچھ نہیں ہوتا ۔ایان نے اظہار خیال کیا ۔پریسہ کی نگاہیں اس کے سنجیدہ چہرے پر رک سی گئی ۔

"ینگ مین ،انہیں ضروری کاموں میں زندگی جیسی ضروری چیز کو ہم اکثر بھول جاتے ہیں ۔"وہ مسکرا کر مدبرانہ انداز میں بولے ۔

ایسی باتیں اپنی چیز کو بھی سمجھا دیجیے جو شادی کے نام سے بھاگتی ہے۔آخر کب سیٹل ہوگی۔"مما کے یو آئی ان کے سامنے اس موضوع کو چھیڑنے پر اس کے چہرے پر سرخی پھیلی،لب کاٹتی وہ سرجھکا گئی۔ 

"اوہو،ابی اتنا ٹائم بھی نہیں گزرا اس کی ڈگری ختم ہوئی جتنی آپ کو ٹینشن ہے ۔"

"3 سال ہو چکے ہیں ۔"مما اس موضوع پر گھنٹوں بول سکتی تھی ۔

"یہ ان کا ہارٹ ٹوپک تھا ۔"پاپا آیا ان کی جانب بڑھے تو وہ بھی مسکرا دیا ۔

"آپ دونوں تو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں بلکہ ایان میں تو تمہیں بھی کہوں گی کہ اب شادی کر لو ۔"مما کی بات پریسہ نے بے اختیار ایان کی جانب دیکھا ،اس کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی ۔چہرے پر سنجیدگی پھیل گئی ۔

"میرے لیے ایک ہی تجربہ کافی ہے ۔"لمحے بھر کے وقفے کے بعد وہ نارمل لہجے میں بولا ۔"آپ کے آفس کا انٹیریئر مجھے بہت پسند آیا ہے۔ہم نے بھی کچھ نئی میٹنگ روم بنوائے ہیں ،میں ان کا انٹیرئیر کروانا چاہ رہا تھا ۔کچھ یونیک سا ۔"

"یہ سارا پریسہ نے کیا ہے۔"پاپا کے لہجے میں خوشی جھلکی۔آج کل بھی یہ ایک کمپنی کا انٹیرئیر کر رہی ہے۔وہ چونک کر اس کی جانب مڑا،اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ کیا کرتی ہے۔

"ویری نائس۔پھر تو میں آپ کو انوائٹ کرتا ہوں۔ میرے ‏آفس آئیے۔ہم بھی آپ سے اپنا آفس ڈیکوریٹ کروانا چاہتے ہیں ۔"اس کے یوں سہرانے اور دعوت دینے پر وہ بے یقینی سے مسکرائی۔

"بالکل ہمارا یہ پروجیکٹ اینڈ ہونے والا ہے۔ میں ضرور آؤں گی ۔

"ڈیٹس گڈ"۔اس نے سر ہلاتے ہوئے نگاہ پھیر لیں اور یہ نا جان سکا کہ اس لڑکی کی آنکھوں میں کتنی جگنو جگمگا اٹھے تھے ۔

 


وہ دفتر سے نکل کر تیز قدموں سے باہر کی جانب بڑھ رہی تھی،جب وہ راستے میں آ کھڑا ہوا۔اسے دیکھ کر زوہا کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔

"مس زوہا!۔ کیسی ہیں آپ؟احرار نے مسکراتے رہتے میں پوچھا ۔اس کے چہرے کے بگڑے زاویے وہ نوٹ کر چکا تھا۔

"آپ واقعی میں وکیل ہیں۔اس دن میں یوں ہی سر راہ مل گئے تھے،کہنے کے بجائے اگر کام پر توجہ دیں گے تو آپ کے کیریئر کے لئے مفید ہو گا۔"زوہا کے طنزیہ انداز پر اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ 

"آپ ایسا بھی کہہ سکتی ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔اسی لئے تو آپ کے آنے کی خبر ہو جاتی ہے ہمیں ۔"

"ایسی راہوں پر بے کار لوگ چلتے ہیں۔ "اس کا چہرہ سرخ ہوا ۔

"حسنین لڑکیاں غصے میں بھی کمال لگتے ہیں ۔"اس کا تپتا انداز اسے مزہ دیا گیا۔

"اب آپ خود میرا راستہ چھوڑی گی یا پھر کوئی تماشا لگوانا چاہتے ہیں ۔"وہ تنک کر بولی ۔

"ریلکیس۔.۔میں تو آپ کا کیس شروع ہونے کی مبارکباد دینا چاہ رہا تھا مگر سچ کہوں تو اس کے اس کا فائدہ کچھ نہیں ہونے والا،بس تاریخیں ملتی رہیں گی۔"اس کے پر یقین لہجے پر اسے تاؤ آیا۔
"میں یہ کیس ضرور جیت ہوگی کیونکہ میں عزیز ھمدانی کی بیٹی ہیں اور سچ کو ثابت کرنا مشکل تو ہو سکتا ہے ناممکن نہیں ۔"

"یہاں سچ کو ثابت کرنا بھی اکثر ناممکن ہو جایا کرتا ہے ۔جعفری صاحب کی فیس جو آپ کس تو میں بھر رہی ہیں ،یہ بھرتے آپ پوری ہو جائیں گی مگر حاصل کچھ نہیں ہوگا ۔"

اپنے اندر ابھرتے غصے کو اس نے بمشکل ضبط کیا ۔"آپ بھی یہیں ہیں اور میں بھی ،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔"

"جب بھی اپنا کام ہونے لگیں تو یہ یاد رکھئے گا کہ احرار فاروقی آپ کی ناکامی کو بھی کامیابی میں بدل سکتا ہے ۔"اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔

اس کا لہجہ سنجیدہ تھا ۔ہے اس کے راستہ چھوڑتے ہیں وہ تیزی سے آگے بڑھی۔

"میری آفر بھولیے گا نہیں ۔"وہ کہنا نہیں بولا تھا ۔اس کو رُکے بغیر آگے بڑھتے دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

 


وہ عورت کمرے میں ساری چیزیں پھیلائے بیٹھی تھی ۔

"میم !یہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔"اندر آتی نرس اس کے قریب آئی۔ فینسی ساڑھی میں ملبوس ،بہت سے زیورات پہنے وہ اب میک اپ سے چہرے پر عجیب و غریب نقش ونگار بنا رہی تھی ۔

"پیچھے ہٹو ۔میں تیار ہو رہی ہوں۔ان کے آنے کا وقت ہو گیا ہے نا ۔" نرس کا ہاتھ جھٹک دیں وہ جیسے کسی تصور میں کھو کر مسکرانے لگیں ۔

اسی وقت ہارن کی آواز سنائی دی تو وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھی ۔

"دیکھا آ گئے نا ۔تم تو جاتی تھی میں تیار نہ ہوں۔ہٹو اب۔"اس کا ہاتھ بٹاتی وہ جلدی سے لاؤنج میں آگئی ۔جس کے داخلی دروازے سے وہ اندر داخل ہو رہا تھا ۔

"تم ،وہ کہاں ہیں۔وہ نہیں آئے ۔"اسے دیکھ کر عورت کے چہرے پر مایوسی پھیلی ،وہ حیرت سے اس عورت کا حلیہ دیکھ رہا تھا ۔

"یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے انہوں نے ۔"اس کا ہاتھ تھامتا وہ نرس سے بولا ۔

"سر ! یہ خود ہی تیار ہوگئیں۔نرس منمنائی ۔

"تم کیوں آگئے پھر سے ۔وہ کیوں نہیں آئے۔"وہ خفا ہوئی تو اس نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔"وہ آ جائیں گے آپ بیٹھیں۔"

"تم کون ہو ۔"عورت نے اس کے دونوں ہاتھ جھوٹ کے پھر وہ نرس کی جانب گھومی۔"یہ اندر کیسے آیا ،نکالو اسے ،کون ہے یہ ؟َ"

"آپ آئیے میرے ساتھ میں گارڈ کو بلاتی ہوں آپ آئیے۔"اتنے پکڑ لو اپنے ساتھ لے گی تو وہ اذیت سے آنکھیں میچتا وہیں صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا ۔

 


ٹیکسی سے اتر کر وہ کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑی ہو گئی تھی ۔یکدم کسی کے قریب آ کر سلام کرنے پر چونکیں۔

"کوئی مسئلہ ہے میں مدد کر سکتا ہوں ۔"وہ زوہا سے مخاطب تھا جس کے چہرے کے زاویے اسے دیکھ کر بگڑے جبکہ انعم نے حیرت سے اس ہینڈسم لڑکے کو دیکھا ۔

"آپ کون ؟"زوہا سے پہلے انعم پڑی۔

"حمزہ !ارے تو آپ حمزہ ہیں ۔آپ سے ملنے کا توخاصا اشتیاق تھا ۔"انعم پرجوش ہو کر بولی ۔

حمزہ مسکرایا ،ساتھ میں زوہا کو دیکھا جو انعم کو تنبیہی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔

"میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں ۔"

"ہم ٹیکسی والے کا انتظار کر رہے ہیں بس وہ چینج لے کر آتا ہوگا ۔"اسی وقت ٹیکسی ڈرائیور پیسے لے آیا ۔

"عنایہ بھی آ گئی ۔"قریب آتی ہے ان عنایہ کو دیکھ کر انعم نے تعارف کروایا ۔

"عنایا وہی حمزہ ہیں ۔"زور وہیں پر تھا ۔حمزہ کے لبوں کے کناروں پر مسکراہٹ آٹھہری۔

"کیسے ہیں آپ ؟عنایا نے بھی خوش دلی کا مظاہرہ کیا ۔

"بالکل ٹھیک ۔میں چلتا ہوں آپ انجوائے کریں ۔"

"ایسے کیسے ۔عنایا ہمیں ٹریٹ دے رہی ہے ۔

آپ بھی آئے نا ۔"انعم کے دعوت دینے پر زوہا نے بولنے کے لئے منہ کھولا مگر عنایا بول پڑی ۔

"انعم ٹھیک کہہ رہی ہے ۔آئے نہ اس بہانے ہم بھی آپ سے کچھ بات چیت کر لیں گے ۔"زوہا کے غصے بھرے تاثرات کو دیکھتا وہ ان کے ساتھ ریسٹورنٹ آگیا ۔

"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ دونوں بھی میرا انٹرویو لینا چاہتی ہیں ۔"ان کو اپنی طرف دیکھتا پا کر حمزہ نے خوشی کا اظہار کیا ۔

"ایسا کچھ نہیں ہے ۔بلکہ میں تو سوچ رہی ہیں آپ خاصے فٹ فاٹ ہیں۔ آنٹی کو فوراً ہاں کر دینی چاہیے ۔"انعم بےساختہ بولی۔

"آنٹی تو کر دیں مگر یہ آپ کی سہیلی انہوں نے تو مجھے بری طرح ڈی گریڈکر دیا تھا۔آخر یہ اتنی بد ذوق کیوں ہیں۔"آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔

"صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔اسلم نے اسے بچپن سے ہی شادی کا کوئی شوق نہیں ہے۔"آنعم کی گل افشانی پر جہاں عنایا مسکرائی وہی حمزہ نے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا اور زوہا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ انعم کے منہ پر ہاتھ رکھ دے۔ 

"پھر تو ہمارے خیالات کافی ملتے جلتے ہیں ۔بچپن میں تو مجھے بھی شادی کا کوئی شوق نہیں تھا ۔"حمزہ کے شرارتی انداز پرانعم ہلکی سی  مسکرائی ۔

"اس کا مطلب ہوا کہ آپ تو مجھے پورے نمبر دیں گے ۔"حمزہ نے اس کی خفت مٹانے کو بات بڑھائی ۔

"سوفی صد حمزہ بھائی ۔!"

"ایک بات بتائیں ،یہ آپ کی سہیلی ہر کسی کو ایسی خوں خوار نظروں سے گھور تی ہیں یا مجھ معصوم پر یہ خاص عنایت ہے اور کیا ان کے چہرے کے زاویے بھی یوں ہی سب کو دیکھ کر بگڑ جاتے ہیں ۔"اس کے شوق انداز پر دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ۔

"ٹھیک سمجھے آپ ۔میں ایسی ہی ہوں اس لیے آپ اپنی زندگی برباد نہ کریں تو بہتر ہوگا ۔"اس سے زیادہ زوہا کے لیے ضبط کرنا مشکل تھا سو سرد لہجے میں بولی ۔

"میں ایڈونچرز کا خاصا شوقین ہوں تو ایک اور ایڈونچر سہی ۔"اس کی جانب دیکھتا خوبصورت لہجے میں بولا تو ان کا دل اش اش کر اٹھا۔پھر ان دونوں کی جانب دیکھتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔میں مزید آپ کی دعوت خراب نہیں کروں گا۔آپ سب انجوائے کریں میں چلتا ہوں۔"انہیں خدا حافظ کہتا ایک اور نگار نوحہ پر ڈالتا وہ آگے بڑھ گیا۔ 

"واہ! کیا بندہ ہے۔تمہارے ساتھ کیا خوب جچے گا زوہا۔"انعم نے بے لاگ تبصرہ کیا ۔عنایا نے اپنی ہنسی روک تے ہوئے زوحہ کو دیکھا جو یقینا انعم کی اچھی طرح کلاس لینے والی تھی ۔

 


"اف تھک  گیا آج بہت کام تھا دفتر میں ۔سر کھجانے تک کی فرصت نہیں تھی ۔ تم کب آئی ؟بینچ کے دوسرے کونے پر پاس رکھ کر بیٹھے ہوئے وہ بولا ۔

"کافی دیر ہوگئی مجھے آئے ۔مجھے لگا شاید آپ نہیں آئیں گے ۔"وہ دھیمے لہجے میں بولی ،چہرے پر ایک خوشگوار احساس پھیل چکا تھا ۔امید کے یقین میں بدل جانے والا تھا ۔

"ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ میں بتائے بغیر غائب ہو جاؤں۔اسی لئے تولیٹ ہونے کے باوجود میں پہنچ گیا ۔بلکہ اپنا لنچ بھی لے آیا ساتھ۔دفتر میں وقت نہیں ملا کھانے کا۔"دوستانہ انداز میں بولتا ہوں وہ ہاتھ میں پکڑا لنچ بوکس کھولنے لگا۔

"ٹرائی کرو کیسا ہے۔ میں نے خود بنایا ہے ۔"عماد نے لنچ بوکس اس کے قریب رکھا ۔

"آپ کھائیں ،میں لنچ کر چکی ہوں۔"آئرہ نے کہا ۔

"کوئی بات نہیں ۔اب تو بہت وقت ہو گیا ہے ۔تھوڑا سا لے لو ۔یقین کرو اتنا برا نہیں بناتا ۔"

عماد پر مزاح انداز میں بولا تو اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر قریب رکھے لنچ بوکس کو ٹٹولا اور اوپر رکھا سینڈوچ اٹھا لیا ۔عماد خود بھی سینڈوچ اٹھا کر کھانے لگا ۔

"میرے بارے میں آپ تو جان گئے۔اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا آپ نے ۔"

آئرہ کے پوچھنے پر اس نے گہرا سانس لیا ۔"میں اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھا ۔"میں گیارہ سال کا تھا جب ابو کا انتقال ہو گیا ۔امی نے ٹیچنگ شروع کر دی ۔اس وقت میرے نانا حیات تھے ان کی خاصی سپورٹر رہی ہمیں ۔میرے چچاؤں تو پلٹ کر ہماری خبر نہ لی ۔پھاڑنا کی کچھ جائیداد تھی جو امی کو خوش قسمتی سے اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ترکے میں مل گئی ۔بس گزر بسر آسانی سے ہو گیا ۔یوں میری پڑھائی کا خرچہ بھی امی پر بوجھ نہیں بنا۔پڑھائی ختم ہوتے ہیں سب ماؤں کی تاہم امی کو میرے سر پر سہرا سجانے کی فکر ستانے لگی ۔مگر وقت نے مہلت نہیں دی ۔ڈیڑھ سال قبل ان کا انتقال ہوگیا ۔بس یہی ہے میری کہانی ۔"اس کے لہجے کی افسردگی کو آئرہ نے محسوس کیا ۔

دوسرے ہی لمحے وہ ہشاش بشاش لہجے میں بولا ۔"بڑی بے مروت لڑکی ہو ۔سینڈوچیز کی تاریخ تک نہیں کی ۔یہی کہہ دو کہ ایسے سینڈوچ تم نے کبھی نہیں کھائے۔"

"ایسے مزے دار سینڈوچیز میں نے واقعی ہی کبھی نہیں کھائے۔"وہ ہنس دی ۔

"دیکھ لو تمہارے چھوٹے ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہوں ۔"وہ بھی ہنس دیا تھا اور اس لمحے آئرہ کے دل میں خواہش ابھری تھی کہ کاش وہ اس شخص کے چہرے کے رنگوں کو دیکھ سکتی ۔

 


ریوالونگ چیئر پر بیٹھے وہ دوسری جانب موجود شخص کی بات سن رہا تھا ۔

"ہوں ٹھیک ہے آپ اس کیس کی فائل لے آئیں۔دوسرا کونسا ؟نگاہیں قریب پڑی فائل پر گئیں۔

"اس طرح کے بے کار فراڈ کیسز آپ خود ہینڈل کیجئے۔آپ بہتر ڈیل کرنا جانتے ہیں۔اوکے اوکے بائے۔"اس نے عجلت میں فون کا ریسیور رکھا۔

"سوری یہ مصروفیت میں جان نہیں چھوڑتی۔تم بتاؤ انگلینڈ سے کب آئے؟۔"آیان اس کی جانب متوجہ ہوا۔ 

"دو ہفتے ہو گئے ہیں مجھے آئے ۔"اس بار پکا ارادہ تھا کہ پرانے دوستوں سے ملوں گا ۔"

حمزہ مسکراتے ہوئے بولا ۔وہ دونوں کالج کے وقت کے دوست تھے اور اس کے بیج امیری غریبی کے فرق کے باوجود ان کی دوستی اتنی اچھی تھی کہ حمزہ کے باہر چلے جانے کے باوجود ان کا رابطہ قائم تھا ۔شروع میں اکثر وہی میل کیا کرتے تھے پھر کچھ عرصہ یہ سلسلہ ٹوٹا رہا اور جب پھر سے بحال ہوا تو بات کم کم ہونے لگی مگر ضرور ہوتی تھی ۔

"پھر کوئی ری یونین کرتے ہیں ۔"آیان کو بھی وہ وقت یاد آگیا تو چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

"تم خاصے بدل گئے ہو ۔گریس فل لگ رہے ہو بالکل انکل کی طرح مگر یہ سنجیدگی کیوں اتنی اوڑھ لی ہے ۔"حمزہ شگفتگی سے اس کی ذات کا تجزیہ کیا ۔

"بس وقت اور حالات کی دین ہیں ۔"آیان علی سے مسکرایا ۔

"انکل کا بہت افسوس ہوا ۔بہت جلدی چلے گئے ۔"

"تم ہمدانی گروپ آف کمپنی کب جوائن کر رہے ہو ۔؟"

"نہیں بھائی ،دوستی میں مجھے کسی قسم کی ملاوٹ نہیں پسند ۔یوں بھی میری جاب ہو گئی ہے ۔نیکسٹ ویک ڈرائنگ دینی ہے ۔"حمزہ نے بتایا ۔آج ہی تو اسے تقرری کا معلوم ہوا ۔

"گڈ۔یعنی ہماری کمپنی ایک ذہین ایمپلائی سے محروم ہوگئی ۔"ایان نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔اتنے عرصے بعد آج وہ یوں کھل کر خوشی محسوس کر رہا تھا ۔

"یہی سمجھ لو ۔اچھا اب یہ بھی بتا دو کہ مجھے چاچو کہنے والے کتنے ہیں ۔"حمزہ شوخی سے بولا آیان کے چہرے پر سایہ سا لہرایا ۔لمحوں میں اس کی مسکراہٹ سے مٹی تھی ۔حمزہ کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

"ایسا کوئی نہیں ہے۔"

"ایم سوری میں۔۔۔۔۔۔۔۔"ہنزہ نے بولنا چاہا مگر آیان نے اس کی بات کاٹی۔ 

"دانیا اب میری بیوی نہیں ہے ۔ہماری طلاق ہو چکی ہے ۔ایان نے سنجیدگی سے کہا ۔

حمزہ کو کو دھچکا لگا تھا یہ سن کر ۔کالج کے بعد وہ الگ تو ہوگئے تھے مگر آیان اس سے ہر بات شیئر کرتا تھا ۔

یونیورسٹی میں اس کی دانیا سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا ۔اس کی ہر ای میل میدان یا کا ذکر ہوتا تھا ۔بھی دیگری مکمل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے شادی کرلی تھی ۔آیان کی اس طوفانی محبت کا اس اچھی طرح علم تھا ۔بہت خوش تھا وہ اپنی شادی پر ۔

پھر ان کا رابطہ منقطع ہوگیا اور جب جڑا  تو ایان نے انکل کے انتقال کی اطلاع دی ۔اس کے بعد کی ای میلز میں اس نے کبھی اپنی بیوی کا ذکر نہیں کیا تھا مگر حمزہ یہ نہ جان سکا کہ وہ اس کی زندگی سے جا چکی ہے ۔یہی وجہ تھی کہ اسے یہ سن کر دھچکا لگا تھا ۔

 


"ہوں یہ تھیم مجھے پسند آئی ہے ۔"اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو چونکے اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے کے کیٹلاک تھام  لیا ۔لمحے بھر کے لیے نگاہیں ان کی صحافت پر پڑیں۔

"اوکے میں رومز دیکھنا چاہوں گی۔ "

"ایان نے قریب پڑے فون کا رسیور کان سے لگایا ۔' مس روحی اندر آئیے ،کچھ لمحوں بعد دستک دے کر ایک لڑکی اندر آئی ۔

" مس روحی یہ پریسا ہیں ۔یہ ہمارے نئے رومزکا انٹریر کریں گی ۔آپ نہیں جاوید صاحب کے پاس لے جائیں ۔وہ ان رومز کو دکھا دیں گے ۔میں جاوید صاحب کو بریفنگ دے دیتا ہوں ۔"

"یس سر !لڑکی نے مودبانہ انداز میں کہا ۔"

"اوکے کے پریسہ بیسٹ آف لک ۔"اپنی مخصوص پروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا ۔لمحے بھر کے لئے اس کے لبوں پر پھیلنے والی مصنوعی مسکراہٹ کو دیکھتی وہ تھینک یو کہتی آگے بڑھ گئی ۔

 


صوفیہ بیگم نے چائے کی پیالی حمزہ کے سامنے رکھیں تو وہ جو صوفے پر نیم دراز تھا سیدھا ہو بیٹھا ۔

"عالیہ کو فون کیا تھا۔"ان کی سنجیدگی سے کہنے پر حمزہ متوجہ ہوا ۔

"شرمندہ ہو رہی تھی کہ زوہا رشتے کے لیے نہیں مان رہی ۔مسلسل انکار کر رہی ہے ۔کہتی ہے شادی نہیں کروں گی ۔"مجرمانہ ۔۔۔انداز میں انہوں نے حمزہ کو دیکھا جو نارمل انداز میں چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا اوپر سے اس کا سوال ۔

'آپ کو برا لگ رہا ہے ؟۔"

"تمہیں لگ رہا ؟انہوں نے بھی سوال داغا۔

"نہیں ،مجھے تو پہلے ہی انکار کر چکی تھی ۔"وہ مسکرایا ۔

"میں تو سوچ سوچ کر شرمندہ ہو رہی تھی کہ تم بھی کہو یہ کہ ماما نے کیسی لڑکی پسند کی ہے جس نے انکار ہی کر دیا ۔"وہ کچھ مطمئن ہوئیں۔

"ریلیکس ماما !اس نے کونسا مجھے ناپسند کیا ہے ۔بس اس سے شادی نہیں کرنی ۔"

"لڑکی تو بہت اچھی ہے بس ذرا جذباتی ہے ۔اصل میں اس نے اپنی ماں کے ماضی کا بہت اثر لیا ہے ۔لیکن تم فکر نہ کرو جلد ہی میں کوئی اور لڑکی تلاش کر لوں گی۔"وہ خوش ہو کر بولیں ۔

"اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ماما ۔مجھے زوہا ہی پسند ہیں ۔اسے تھوڑا وقت دیں ۔اتنی جلدی تو وہ اپنا فیصلہ نہیں بدلے گی نا۔"

انہوں نے چونک کر بیٹے کے چہرے پر پھیلی خوبصورت مسکراہٹ کو دیکھا ۔ماں کے لحاظ میں وہ یہ نہیں کہہ سکا تھا کہ وہ لڑکی دل کو اچھی لگی ہے تو پھر کسی اور کی تلاش گنجائش ہی کہاں نکلتی ۔

 


آپ کیا کر رہے ہیں جعفری صاحب ،آخر یہ کیس کیوں لٹک رہا ہے ۔"زوہا شدید دبی ہوئی ان کے دفتر میں بیٹھی ہوئی تھی ۔

"اس طرح کے کیسز اکثر طویل ہو جایا کرتے ہیں اور پھر میں کیا کروں ۔آپ کے کاغذات تو پورے نہیں ہیں ۔عدالت کیسے مان لے کے آپ عزیز ہمدانی کی بیٹی ہیں ۔اس طرح فیصلے نہیں ہوتے ۔مکمل ثبوت چاہیے ہوتے ہیں ۔ابھی حال میں ہیں اس قسم کا فراڈ کا کیس ختم ہے ۔اتنا آسان نہیں ہوتا یہ سب ۔"وہ بھی خاصے غصے میں تھے ۔وہ جب سے آئی تھی ان کا سر کھا رہی تھی اب وہ زچ ہوگئے تھے ۔دن بھر کی مصروفیت کے بعد اس جیسی کلائنٹ سے سر کھپانا آسان نہیں تھا ۔

"پھر ڈی این اے ٹیسٹ کس مرض کی دوا ہے ؟زوہا آج انہیں بخشنے کو تیار نہیں تھی ۔

"وہ سب کچھ چٹکی بجاتے نہیں ہوتا کے دو پیشیوں میں ہیں آپ ڈی این اے کا کہیں اور عدالت فورا مان جائے اور بہت کچھ پہلے دیکھنا پڑتا ہے اور پھر دوسری پارٹی ہمیں یہاں تک آنے ہی نہیں دے رہی ۔آپ تھوڑا حوصلہ کریں ۔اس کیس میں تاریخی لمبی ہی ملتی ہیں ۔اور آپ کا کیسا اچھا خاصا کمزور ہے پھر بھی میں نے عنایا بیٹی کی وجہ سے ہامی بھر لی ۔"انہوں نے دل لحاظ نہ کرتے ہوئے جتا دیا ۔

اسی وقت دستک دیتا احرار فاروقی اندر آیا ۔

"میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔"چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔نگاہیں غصے سے کھولتی زوہا پر بھی پڑیں۔

"احرار آؤ آؤ بیٹھو ۔"

"آپ کی کلائنٹ کچھ خاص خوش نہیں لگ رہی ۔"زوہا کی کرسی کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا وہ بولا ۔

"ایسی بات نہیں ہے بس کلائنٹس کو قانون سمجھانا پڑتا ہے ۔"وہ نارمل انداز میں بولے ۔پھر ان کا فون بج اٹھا تو وہ معذرت کرتے فون سننے باہر نکل گئے ۔زوہا نے اپنا بیگ اٹھایا۔ اس کا ارادہ بھانپتا وہ بول اٹھا۔

"مایوس ہو رہی ہیں تو یاد رکھئے ۔میری آفر برقرار ہے ۔"

زوہا نے اٹھا کر اسے دیکھا ۔موڈ ہی خراب تھا۔

"آپ کی کی عادت ہے ہر لڑکی سے فری ہونے کی۔"

"کیا آپ خود کو باقی لڑکیوں میں شمار کرتی ہیں۔"اس کا اندازلطف لینے والا تھا۔

"میں جو بھی سمجھوں آپ کو اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔ بس یہ سمجھنے کہ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو آگے آگے پیچھے پھرتی ہیں یا آپ کی امارات سے مرعوب ہیں اور اپنا وقت آپ کے لئے برباد کرتی ہیں۔"

"عنایہ نے کافی کچھ بتا دیا ہے آپ کو میرے بارے میں ۔اچھا ہے اور کیا کچھ معلوم ہوا ۔"اس کی محفوظ مسکراہٹ پر زوہا کے اندر اشتعال کی لہر اٹھی جنہیں اس نے بمشکل دبایا ۔

"ہمارے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ آپ جیسے شخص کو ڈسکس کرتے پھریں۔"طیب رو سے کہتی وہ تیزی سے اٹھ کر باہر نکل گئی ۔

احرار فاروقی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ۔ایسے ہی وہ لڑکی نہیں پسند تھی اسے ۔کچھ خاص تھا اس میں ،اس کا نام لکھنے والا انداز اسے اس کی جانب متوجہ کرتا تھا ۔

 


فٹ پاتھ پر چلتی وہ کافی آگے تک آ گئی تھی ۔ایک دم پیچھے سے کسی کے پکارنے پر خود سے الجھتی وہ چونکی ۔مڑ کر دیکھنے پر حمزہ کو گاڑی سے اتر کر قریب آتے دیکھ کر سخت کوفت کا شکار ہوئی۔ پہلے ہی احرار فاروقی کی باتوں پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا ۔

سلام کرتا ہوں وہ قریب آیا ۔

"کیسی ہیں زوہا آپ ۔آ جائیں ۔میں ڈراپ کر دیتا ہوں ۔"

"کیوں شہر بھر کی لڑکیوں کو ڈراپ کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے آپ نے ۔ مجھ پر بھی یہ مہربانی کرنے کا ارادہ ہے ۔"وہ غصے سے بولی ۔

"کمپنی والوں نے ہرگز مجھے اس نیت سے گاڑی نہیں دی اور نہ میں اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے کی کوئی خواہش رکھتا ہوں ۔نہایت ہی شریف انسان ہوں ۔"

"شریف انسان سڑکوں پر لڑکیوں کے راستے نہیں روکتے پھرتے اور جب میں آپ کو انکار کرچکی ہوں تو آپ بھی اجنبی بن کر مجھے پہچاننے سے انکار کر دیں ۔"گرمی کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ پر گیا ۔

"خیر،اتنا بد اخلاق تو میں بھی کبھی نہیں رہا ۔جہاں تک انکار کی بات ہے تو آپ نے بھی  ٹھک کر انکار کردیا۔مانا کے مجھے نہیں جانتی مگر کچھ وقت تو لیتیں۔وہ دوستانہ انداز میں بولا گویا وہ کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے اپنے رشتے پر بات کر رہے ہوں۔

"میں اپنا فیصلہ سنا چکی ہوں ۔"اٹل لہجے میں بولتی وہ مورتی تو پیچھے سے اس کی آواز آئی ۔

"امتحان لینا چاہتی ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں ۔"

زوہا نے مڑ کر اسے دیکھا جو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا ۔

"امتحان وقت سے پہلے نہیں ہوا کرتے ۔"وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔

"وقت کا تو سارا کھیل ہیں زوہا بی بی ۔"خود کلامی کرتا ہے وہ واپس گاڑی میں بیٹھا ۔

 


وہ اس قدر جھنجھلائی ہوئی تھی کے کتنی دیر پیدل ہی چلتی رہی ۔وہ پھر وقت کا احساس ہوا تو ارد گرد کا جائزہ لیا ۔سستے قدموں سے آگے بڑھتی وہ روڈ کراس کرنا چاہتی تھی جب تیزی سے قریب آتی گاڑی کا احساس نہ ہوا ۔گاڑی کے ڈرائیور نے فوراً بریک لگایا۔مگر پھر بھی گاڑی اس سے ٹکرا گئی ۔وہ گرتے گرتے بچی تھی۔اس نے بے اختیار اپنی کلائی کو چھوڑا ۔

ڈرائیور گاڑی سے نیچے اترا ۔

"بی بی زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ۔"

تکلیف ضبط کرتے ہوئے اس نے غصے سے کچھ کہنے کی گھر سے سر اٹھایا مگر گاڑی کی پچھلی سیٹ سے جھانکتے چہرے کو دیکھ کر الفاظ منہ میں ہی رہ گئے ۔وہ آیان عزیر کا چہرہ تھا ۔جس نے محض ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی پھر ڈرائیور کو اشارہ کیا تو وہ اس کی بات سننے لگا ۔کچھ لمحوں بعد وہ اس تک آیا ۔

"آپ کو چوٹ آئی ہے ۔صاحب کہہ رہے ہیں ۔یہ کچھ پیسے رکھ لیں۔"غصے کی ایک تیز لہر اس کے ساتھ وجود میں اٹھیں تو ڈگمگا کر بولی ۔

"اپنے صاحب سے بولو اپنی بھیک اپنے پاس رکھیں ۔"اسے حیران چھوڑ کر وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔

اگلی صبح بھی اس کا موڈ سخت کھڑاخراب تھا۔پچھلے دن کے سارے واقعات اس کے ذہن میں جیسے گڈ مڈ ہو رہے تھے اور اپنی بےبسی پر تاؤ آ رہا تھا ۔یونیورسٹی پہنچی تو دو کلاسزکے بعد وہ فارغ تھے ۔ایک پروجیکٹ کے لیے انہوں نے اکٹھے کرنے تھے ۔

عنایہ نے کچھ لوگوں سے بات کر رکھیں کی جن سے فنڈ اکٹھا کرنے میں ان کا سارا دن گزر گیا تھا ۔شام پانچ بجے وہ آخری جگہ پہنچے تھے ۔وہ کوئی مہنگا ترین ریسٹورنٹ تھا جس کے مینیجر سے عنایہ کی بات ہو چکی تھی ۔وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے سامنے کھلے ہال سے روشنیوں کا سیلاب امڈتا ہوا محسوس ہوا ۔ارینجمنٹ بے حد خوب صورت تھی ۔جانے لوگوں کے پاس اتنا فالتو پیسہ کہاں سے آتا تھا کہ وہ ان چیزوں پر اتنا خرچہ کرتے تھے ۔جب لوگ آگے بڑھے اس کے قدم رُکے۔ وہ آیان عزیر ہی تھا جو ویٹر سے کچھ کہہ کر آنے والے کا استقبال کرتا اندر چلے گیا ۔

"یہاں کونسا ایونٹ ہو رہا ہے ۔"وہ ویٹر تک پہنچی تو انعم اور عنایہ بھی اس کے پیچھے ٹپکیں۔ویٹر نے عام سی چادر میں کھڑی اس لڑکی کو گھور کر دیکھا ۔

"ہمدانی گروپ آف کمپنی کی اینول سکسیس پارٹی ہے ۔"زوہا کی نگاہیں پھر سے اس شاندار ہال پر جم گئیں تھیں۔

"جاؤ بی بی یہاں سے لوگوں کا رستہ چھوڑو ۔"ویٹر نے انہیں وہیں کھڑے دے کر بے زاری سے کہا ۔ان کے حلیوں سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ یہاں کے مہمان نہیں ہیں ۔ہاں ایک لڑکی جو کچھ اسٹائلش لباس میں تھی ،اس کے کپڑے کچھ قیمتی محسوس ہو رہے تھے مگر تھی تو ان کے ساتھ ہی۔

عنایا نے زوہا کا بازو ہلایا اور یکدم آیان عزیز کو اپنی جانب آتا دیکھ کر اپنا رخ پھیرا ۔وہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہلی تھی۔

"یہ یہاں کیا ہو رہا ہے ؟"اس کی آواز میں ناگواری تھی ۔

"سر ! یہ لڑکیاں خوامخواہ روشنی دیکھنے کے شوق میں آگئی ہیں ۔"ویٹر کے بیان پر انعم نے کینہ توز نظروں سے اسے گھورا۔

"آپ لوگ یہاں رش مت لگائیں ۔یہاں پارٹی ہو رہی ہے ۔"اس کا ناگوار لہجہ زوہا کے اندر گویا آگ ہی لگا گیا تھا ۔اس کے باپ کے پیسے پر اکیلا عیش کرتا وہ کیسا اترا رہا تھا جبکہ اس سب میں وہ بھی حصہ دار تھی ۔مغرور نقوش والے شخص کو اس نے گھورا تھا ۔اسی وقت انعم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ آگے کی جانب کھینچ لیا تھا ۔وہ آگے بڑھتی سیڑھیوں تک گئی تھی جب زوہا نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا ۔

"تم لوگ جاؤ ۔مجھے نہیں جانا ۔"

ایک ہی جگہ تو رہ گئی ہے وقت کم ہے ۔" انعم نا سمجھی سے بولی۔وہ ایان کو نہیں پہچانتی تھی ۔ 

"ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔وقت خاصا کم ہے۔"

"زوہا۔" عنایہ نے اس کے چہرے کو دیکھا،جو جذبات کی شدت سے سرخ تھا اور اس پر پھیلے تاثرات نا فہم تھے ۔

"پلیز زوہا ۔"کچھ الٹا سیدھا مت سوچنا ۔"

وہ میرے باپ کے پیسے پر حجم اتار ہے اور میں سوچوں بھی نا کیوں کہ اس نے ان کی گود میں آنکھ کھولی اور میں نے ان کی شناخت کے بغیر محض ان کا نام لے کر جنم لیا ۔"وہ سنجیدگی سے بولی ۔انعم کا منہ کھل گیا تھا۔اچھا تو وہ کا سوتیلا بھائی تھا۔

"میں جا رہی ہوں مجھے کام ہے۔"ان کی بات سنے بغیر وہ تیزی سے نکلتی چلی گئی۔

 


دفتر میں بیٹھا وہ ایک کیس کی فائل کو ناگواری سے پڑھ رہا تھاجب کوئی دستک دیتا اس کے 'یس" کہنے پر اندر آیا تھا۔

"مجھے تمہاری آفر قبول ہے۔"اس آواز پر احرار فاروقی نے سر اٹھایا۔وہ مضبوط عزائم کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی۔چہرہ لال انگارہ ہو رہا تھا۔جب کہ آنکھوں میں نفرت اور انتقام کا جذبہ ہلکوڑے لے رہا تھا ۔

"مجھے ہر حال میں ایان عزیز کو ہرانا ہے ۔مجھے اپنا حق لینا ہے ۔"

"ایسا ہی ہوگا ۔تم چاہو تو ہم اس کو تباہی کے دہانے تک بھی پہنچا سکتے ہیں ۔کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا زوہا عزیز ۔"اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی ۔

"اسی لئے تمہارے پاس آئی ہوں۔بتاؤ ،کس شرط پر سودا کرو گے ۔"وہ جی سے جانتی تھی کہ وہ بدلے میں کچھ مانگے گا ۔ایران نے کچھ لمحوں کے لیے اسے بغور دیکھا تھا ۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں غصہ بڑھا تھا۔

"تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا ۔"الفاظ ادا کرتے اس نے دلچسپی سے اس کے حیران چہرے کو دیکھا تھا ۔"

 


"میرا دل چاہتا ہے ۔"پنکھ لگا کر اڑ جاؤں ۔اڑتی چلی جاؤں کوئی مجھے روکنے کی کوشش نہ کرے ۔"ٹھنڈی ہوا میں رچی پھولوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں سموتی وہ جذب سے بولی ۔چہرے پر بچوں جیسا اشتیاق تھا جیسے کوئی بچہ اپنی خواہش بیان کر رہا ہو۔

"ایگزامز چل رہے ہیں تو بندے کو ایسے ہی خیالات آتے ہیں ۔اڑ لینا مگر ایگزامز کے بعد ۔"عماد نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔نگاہیں اس پر تھیں جس کے نم بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور چھوٹا سا کیچر جو اس نے چند بانو کو قابو کرنے کے لیے لگا رکھا تھا ۔وہ ان کی اڑان کو روکنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔

"پیاری کر تو رہی ہوں۔اس بار آپ کے کہنے پر اتنا پڑھ رہی ہوں کہ سارا دن پڑھتے پڑھتے گزر جاتا ہے ۔آپ تو مجھے ٹاپ کرانے کے چکروں میں ہیں۔"وہ مسکرائی تھی۔

"اچھا ہے نہ پڑھنا آخر میں تم نے یہی کہنا تھا کہ آپ نے پڑھنے نہیں دیا۔ساری شام تو آپ ضائع کرا دیتے تھے۔"

"ایسا تو میں کبھی بھی نہیں کہوں گی۔اس وقت کا انتظار تو میں صبح ہوتے ہی کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ہر دن کا یہ وقت مجھے سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔یہ معصوم سا اظہار اس لڑکی نے اپنی معصومیت اور بے ساختگی میں کیا تھا۔

"مس شگفتہ بھی کہتی ہیں۔کہ آپ پارک جانے کی خوشی میں سارا وقت پڑھتی رہتی ہیں۔اس نے اس لڑکی کا ذکر کیا تھا جو اس کے ساتھ پارک آتی تھی۔

"آپ کے لیے تو یہ عام سی روٹین ہوگی نا۔آپ تو دفتر میں اتنا بیزی رہتے ہیں۔"اب کے وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔اس سے پہلے کے اعمال کچھ کہتا کوئی اسے پکارتا قریب آیا تھا۔

"ارے ڈاکٹر عماد ! کیسے ہیں آپ ؟ آپ بھی یہاں آتے ہیں ۔اتنے دنوں میں مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا ۔"وہ جو کوئی بھی تھا پر گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہا تھا ۔مگر اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر آئرہ کے چہرے پر حیرت ہوئی تھی ۔

"آں ہاں۔ بس مجھے پارک آنا اچھا لگتا ہے ۔"وہ تھوڑا گڑبڑایا ۔

"اچھا۔آپ کی سائیکالوجی کی کتاب میرے پاس پڑی ہے ۔تھوڑی مصروفیت کم ہوتی ہے تو میں دے جاؤں گا ۔وہ آپ کے پاس جو پینشنٹبھیجا تھا وہ تو اب بھلا چنگا ہو گیا ہے ۔"

وہ تیز تیز بول رہا تھا جبکہ ہوں ہاں کرتے عماد کی ساری توجہ آئرہ کے رنگ بدلتے چہرے پر تھی ۔پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھی ۔اس شخص کو جلدی سے فارغ کرتا وہ اس کی جانب لپکا تھا۔

"آئرہ!میری بات تو سنو۔تم کچھ غلط سمجھ رہی ہو۔"

"میں آپ کو غلط سمجھی تھی لیکن اب میری غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔میں آپ کی دوست نہیں ایک کیس تھی۔

وہ اسے دیکھ نہیں سکتی تھی ورنہ شکوہ بھری نگاہ ضرور ڈالتی۔بہت سے آنسو اس کی آنکھوں میں جمع ہوئے تھے،پلکوں کی بار مانگنے سے پہلے وہ آگے بڑھ گئی تھی جبکہ وہ اسے پکارتا رہ گیا تھایہ کیا ہوگیا تھا اس نے تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ پھر کتنے دن وہ وہیں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا رہا مگر وہ اتنی بدگمان ہو چکی تھی کہ پلٹ کر نہ آئی اور نہ ہی اسے اب آنا تھا ۔

 


اس کا کام اختتامی مراحل میں پہنچ چکا تھا ۔اس تھوڑے سے عرصے میں وہ بہت پرجوش رہی تھی ۔گویا کیا یا ان سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی ۔وہ خاصہ مصروف رہتا تھا ،دو بار پوچھنے پر اس کے بزنس ٹور پر جانے کا علم ہوا ۔مگر مگر پھر بھی خوش اور مگن تھی ۔

اس نے اتنا خوبصورت انٹیریر کیا تھا کہ جس نے بھی دیکھا تو تصیفی کلمات ادا کیے بغیر نہ رہ سکا ۔اب اسے آیان کا انتظار تھا کہ وہ کن الفاظ میں اس کے کام کو سراہے گا۔وہ اسی کا پوچھنے کے لئے میں سروحی کے پاس جا رہی تھی جب وہ سامنے سے آتا نظر آیا ۔چہرے پر پھیلی گہری سنجیدگی کی چھاپ ،مغرورانہ نقوش ،شان سے چلتا وہ قریب آیا تھا ۔اسے دیکھ کر چہرے پر حیرت پھیلی اور بولنا تو انداز میں عجلت نمایاں تھی ۔

"پریسا! آپ یہاں ،میرے آفس میں کیا کر رہی ہیں ؟"

وہ ٹھٹکی۔:آپ ،آپ نے ہی تو انٹیرئیر کرنے کا کہا تھا ۔"بے یقینی سے اسے دیکھا ۔

"اوہ ! ایم ریلی سوری ۔میرے مائنڈ سے سلیپ ہوگیا۔بزنس کی مصروفیت اتنی ہے ،مجھے تو کھانے پینے تک کا ہوش نہیں رہتا آج کل ۔" اس نے معذرت کا اظہار بھی بڑے پروفیشنل انداز میں کیا تھا ۔کم از کم اسے یہی محسوس ہوا تھا ۔

"آپ پھر اپنا کام کریں میں فری ہو کر آتا ہوں ۔"گھڑی پر نگاہ ڈالتا وہ بولا تو وہ صدماتی کیفیت کا شکار تھی محض سر ہی ہلا دیا ۔وہ آگے بڑھ گیا اور وہ جیسے اپنی جگہ ساکت ہوگئی تھی ۔آج اس سے معلوم ہوا تھا کہ سراب کے پیچھے بھاگنا کیا ہوتا ہے ۔

لاحاصل خواہشات کی تمنا کیسے خوار کرتی ہے اور حقیقت سے آگاہی کیسے دل چیر دیتی ہے ۔وہ اتنی غیر اہم تھی کہ اسے یاد رکھنا بھی اس نے ضروری نہیں سمجھا تھا ۔اس دفتر کی راہ داری میں کھڑے ہیں اسے اپنی آنکھوں سے سیلاب امڈتا ہوا محسوس ہوا تھا جو بہت کچھ بہا کر لے جانے والا تھا ۔

جاری۔۔۔

کیا آپ بھی روزمرہ  کھانا پکانے  کی ٹینشن میں مبتلا ہیں اور آپ کو یہ مسائل پیش آرہے ہیں کہ آج کیا بنائیں تو آپ کی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے ہم آپ کے لیے اردو لینگوئیج میں مختلف ریسپیز لے کر آئے ہیں  ۔ اگر آپ اردو  لینگوئیج میں مزیدار ریسپیز سیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں اس لنک FodiesUrپر کلک کریں  جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔

کیا آپ روزمرہ زندگی  کے کاموں کو آسان بنانا چاہتی ہیں اور اپنی زندگی میں آنے والی بہت  سے مسائل سےبچنا چاہتی ہیں یا صحت کےمطلقہ آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟  تو ہمارے دئیے گئے اس لنکfodiesDailytips پر کلک کریں اور صحت اور روزمرہ کاموں کے ٹوٹکیں پڑھیں جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔


اگر آپ ہمارے سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں ،ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا ہماری سروسز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یہاںfodiesAboutContact پر کلک کریں۔

اگر آپ ہماری ریسپیز کو انگلش یا میسج لینگوئج میں پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنکس پر کلک کریں۔
 For Message Language  fodiesHindi
For English Language fodiesEng
You are Reading Totkay in Urdu.
If You Want To Read The Recipes in English OR Hindi Then Click Below The Links.

ThankYou!

No comments:

Post a Comment

If you have any trouble with fodiesurmagzine. Please Let us know...