Meri talab ka chand part 3




اگر آپ اس ناول (میری طلب کا چاند ) کا پہلا پارٹ part 1  پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں Meri Talab ka Chand Part 1 پر کلک کریں۔اگر آپ اس ناول (Meri Talab  ka chand)  کا دوسرا پارٹ part 2 پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں  Meri Talab ka chand part 2 پر کلک کریں۔

میری طلب کا چاند پارٹ3


مغرب کی اذان کی آواز اطراف میں گونج رہی تھی جب وہ گھر پہنچی۔بیرونی دروازے سے نکلتے مزدوروں کو اس نے حیرت سے دیکھا ۔پھر اندر قدم رکھتے ہی سامنے کھڑے حمزہ کو دے کر ہونٹ سکتی سے بھینج لیے۔مزدور سے بات کرتے وہ اسے دیکھ چکا تھا ۔اسے فارغ کر کے قریب آیا ۔

"میں پوچھ سکتی ہوں آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔"سپاٹ سے انداز میں اسے دیکھا ۔

"آپ لوگوں کے کچن کی چھت گر گئی تھی ۔اسی سلسلے میں یہاں ہوں۔"اس کے بولنے پر زوہا کی نظریں بے اختیار اس جانب گئی جہاں صبح تک چین اپنی درست حالت میں موجود تھا ۔اب اس پر تازہ سیمنٹ نظر آ رہا تھا ۔

"صبح تک باقی کام بھی ہو جائے گا ۔"

"آپ سے کس نے کہا کہ ہم اپنے کام خود نہیں کر سکتے جو آپ ہماری مدد کو پہنچے ۔"اسے اس کا احسان گوارا نہیں تھا ۔

"اور آپ کو یہ خوش فہمی کیوں ہوئی کہ میں آپ کی مدد کے لئے آیا ہوں ۔ ماما اور آنٹی کا تعلق اتنا کمزور نہیں ہے کہ میں ایسے جواز تلاش کروں۔تو آپ بھی یہ کوشش نہیں کریں ۔"لبوں پر شرارتی مسکراہٹ پھیل گئی ۔

"مجھے ایسی بے کار کوششوں کی ضرورت نہیں ہے ۔بہتر ہوگا آپ بھی یہاں تشریف نہ لایا کریں ۔"اسی وقت اس کے بعد سنتی اریبا باہر نکلی تھی اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔

"زوہا باجی آپ اندر چلیں۔"اسے کھینچتی  وہ اندر لے گئی ۔جبکہ دوسرے کمرے سے نکلتی عالیہ بیگم حمزہ کا شکریہ ادا کر رہی تھی اور وہ انہیں منع کرتا صوفیا بیگم کے فون کا پتا تھا کہ وہ ان کے لئے کھانا بنا چکے ہیں وہ  جو وہ کچھ دیر میں  دے جائے گا۔

" یہ آپ کیا کر رہی تھیں زوہا باجی۔ آپ کو پتا بھی ہے صبح سے ہم کتنے پریشان تھے۔ مالک مکان نے الگ جھگڑا ڈالا ہوا تھا۔ یہ حمزہ بھائی ہی ہیں جنہوں نے اسے بھی خاموش کروایا اور مزدروں کے سر پر کھڑے ہوکر کام بھی کروایا۔ آج پہلی مرتبہ کسی مرد نے ڈھال بن کر دفاع کیا ہے۔ورنہ آپ کو کیا معلوم مالک مکان کتنا تنگ کرتا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ۔اور آپ حمزہ بھائی پر ہی برس پڑیں۔آپ کی اسی بات کی طبیعت کی وجہ سے خالہ امی آپ سے یہ سب چھپاتی آئی ہیں ۔"بڑی بہن نے سنجیدگی سے اسے احساس دلانا چاہا ۔مگر زوہا چٹخی۔

"ہمارا مسئلہ مردانہ ہونا نہیں ہے ۔غربت کا ہونا ہے اور میں تمہیں اس سے نکال کر دکھاؤں گی ۔"بیگ بستر پرپٹکتی وہ باہر نکل گئی جبکہ اریبا اپنا سر پکڑ کر رہ گئی تھی ۔

 


اپنے مخصوص انداز میں چادر اوڑھے وہ بینچ پر بیٹھی تھیں ۔قریب بڑے بیگ کا اسٹیپ ابھی بھی کندھے پر تھا ۔راہداری سنسان تھی اور اگر نہ بھی ہوتی تو بھی وہ جس کیفیت میں بیٹھی تھی اس میں باہر کا شور سنائی نہیں دیتا ۔

آنکھوں کے سامنے ایک ہی چہرہ لہرا رہا تھا ۔آیان عزیز کا چہرہ ۔اس کی امارت،اس کا مغرور انداز ،وہ گویا ایک ہی جست میں اس سے سب کچھ چھین لینا چاہتی تھی بھلہ جس دولت میں وہ بھی حصہ دار تھی اس پر وہ اکیلے عیش کیسے کر سکتا تھا ۔ساری محرومیہ اس کے حصے میں کیوں آئی تھی ۔جب کہ دونوں ایک ہی باپ کی اولاد تھے ۔

اپنا حق لینے کے لیے وہ اب کسی حد تک گزر جانا چاہتی تھی ۔اور اس مقصد کے لئے وہ آج احرار فاروقی سے نکاح کرنے آئی تھی ۔اسے یہ آفر قبول تھی ۔اسے اب ہمدانی گروپ کمپنی میں حصہ چاہیے تھا ،چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ملتا ۔یکدم کسی ایک کندھا ہلانے پر وہ چونکی۔

"بیٹی پانی ملے گا!"وہ بوڑھی عورت تھی جس کے جھڑیوں زدہ چہرے پر تھکن رقم تھی ۔اس نے سر ہلا کر اپنی بہن سے بوتل نکال کر ان کی جانب بڑھا ئی۔بوتل تھام کر وہ بیٹھ کر پانی پینے لگیں۔زوہا کی نظریں اس دفتر کے بند دروازے تک گئیں جہاں اھنکا کے پیپر فائنل کروا رہا تھا۔

"شکریہ۔"انہوں نے بوتل واپس کی۔ان کی آنکھوں میں نمی اتری جس سے ہاتھ کی پشت سے انہوں نے صاف کیا۔ 

"کیا ہوا اماں جی !"اس نے بے ساختہ پوچھا ۔

"بس بیٹی یہ تو روز کا رونا ہے ۔یہاں روز آتی ہوں اپنی بیٹی کے لیے ۔"

"کیا ہوا ہے اسے ۔"

"میرے دیوانے ہماری جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا ۔میں تو خدا پر چھوڑ دیا مگر میری بیٹی نہ مانی۔وہ کہتی تھی اماں ہم کیسے کریں گے ،اپنا حق لیں گے ۔"

"ٹھیک کہتی ہے اماں جی۔"اس کے منہ سے نکلا ۔

"ہاہ،میں نے بڑا سمجھایا کہ ہم اکیلی جان ہیں ۔ان سے لڑ نہیں سکیں گے ۔وہ نہیں مانی بار بار ان سے تقاضا کرتی ۔ایسے میں میرے دیور کا لڑکا اس کے پیچھے پڑ گیا ۔اس نے اس سے پیچھا چھڑانے کی بڑی کوشش کی مگر اس نے زبردستی نکاح کر لیا ۔وہ دن اور آج کا دن میری بیٹی کی کوئی خبر نہیں ہے ۔عزت ہو گئی ہے ساتھ میں میری عمر بھر کی کمائی بھی ۔جانے کس حال میں ہو ۔"ان کی آنکھوں میں شدت آئی ۔

اس کے دل کو دھکا لگا تھا ۔ اضطراری کیفیت میں پہلو بولا۔

'اماں جی !حق لینا برا تو نہیں ۔

"کب کہا پی کے دوراہے پر وہ جس قماش کے لوگ ہیں میں جانتی ہوں۔اب کہتے ہیں نکاح کرکے مرضی سے گئی ہے ۔اب میں دکھیاری اماں اسے کہاں سے لاؤں ۔عزت اور بیٹی دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھی میں تو ۔"

سسکتی ہوئی وہ اٹھ گئیں۔اور وہ بے چین سی اپنی جگہ سے اٹھی ۔تو کیا وہ بھی اپنی اور گھر والوں کی عزت کا سودا کرنے جا رہی تھی ۔عزت کے اتنی سستی شے تھی کہ وہاں سے یوں ہی دان کر دیتی۔اور اس کی ماں، عالیہ بیگم کا چہرہ سامنے لہرا گیا۔ یکدم اس کا فون بجا۔ اریبا کا فون تھا اس نے جلدی سے اٹھایا۔

"زوہا باجی کہاں ہیں آپ؟" خالہ امی بہت پریشان ہو رہی ہیں۔ ان کو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ وہ بار بار آپ کو فون کرنے کا کہہ رہی  تھیں اب جا کر آپ کا فون ملا ہے۔ پلیز جلدی آجائیں باجی خالہ امی بہت پریشان ہو رہی ہیں۔ وہ تیز تیز بول رہی تھی۔

"میں آرہی ہوں۔" اس کے فون رکھتے ہی احرار قریب آیا۔

"چلو زوہا۔"

"مجھے نکاح نہیں کرنا۔ میں جارہی ہوں۔" وہ اعتماد سہے بولی تھی۔ بھلا اپنی زندگی کی ڈور وہ احرار جیسے شخص کے ہاتھ کیوں دیتی۔

"یہ مذاق کا وقت نہیں ہے زوہا۔"

"میں مذاق نہیں کر رہی ۔ مجھے اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لیے کسی ناجائز طریقے کی ضرورت نہیں ہے اب آپ کی ضرورت بھی نہیں رہی۔: وہ اٹل لہجے میں بولی تھی۔

وہ ایسی ہی تھی، لمحوں میں فیصلہ کرتی اور پھر اس پر جم جاتی۔ اس کی مرضی کے بغیر کوئی اسے ہلا نہیں سکتا تھا مگر سامنے بھی احرار فاروقی تھا۔

"تم اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔" اس کا گویا دماغ جھنجھنا اٹھا۔ تپ کر اسے دیکھا۔

"مجھے کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔" اس پر نگاہ ڈالتی وہ باہر نکل گئ تھی۔ وہ تیز قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ مغرب کی اذانیں ہو چکی تھیں اور ہلکا ہلکا اندھیرا آگے اطراف میں پھیلتا جا رہا تھا۔ سنسان سڑک پر وہ تھوڑا آگے ہی گئی تھی کہ جب اس کے قریب گاڑی روکتا احرار باہر نکلا۔

"تم نے مجھے سمجھ کیا  رکھا ہے۔ مجے فول بناؤ گی اور میں بن جاؤں گا۔ تم جیسی لڑکی پر میں نے اپنا بہت وقت برباد کیا ہے پر اب نہیں۔ تم احرار فاروقی کو دھوکا نہیں دے سکتی۔" غصے سے بولتے ہوئے اس نے یک دم اس کی کلائی پکڑ کر کھینچا۔

"چھوڑو احرار! ورنہ میں شور مچا دوں گی۔ " اس کی سخت گرفت میں کلائی کھینچی وہ سخت لہجے میں بولی تھی۔

"یہاں تمہاری سننے والا دور دور تک کوئی نہیں ہے ۔ " وہ متاثر ہوئے بغیر اسے دھکیلتا گاڑی تک لے گیا۔ اور زوہا کی گویا جان پر بن آئی تھی۔

"مجھے چھوڑو ورنہ میں تمہارا حشر کر دوں گی۔"

وہ حلق کے بل چیخی اور زور لگا کر اپنی کلائی چھرانی چاہی مگر اس کی گرفت سخت تھی۔

" اب میں بتاؤں گا کہ حشر کیسے کرتے ہیں اور احرار فاروقی سے پنگا لینا تمہیں کتنا مہنگا پڑے گا۔"

اس سے پہلے کہ وہ اسےگاڑی میں ڈال کر دروازہ بند کرتا۔ پچھے سے کسی نے اسے زور دار دھکا دے کر زوہا کی کلائی چھرائی تھی۔ اپنی دُکھتی ہوئی کلائی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے آنے والے کو حیرانی سے دیکھا تھا۔ آنکھوں میں آئی نمی پھسل کر گالوں پر بہنے لگی۔ کسی کی اتنی جرآت کب ہوئ تھی کہ اسے چھو بھی سکتا اور آج جو ہونے جارہاتھا۔ سن ہوتے وجود کے ساتھ اس نے اپنے اور احرار کے درمیان کھڑے حمزہ سرفراز کو دیکھا۔

"کون ہو تم اور پرائے پھڈے میں کیوں پڑ رہے ہو؟ احرار طیش کے عالم میں بولا۔

"آج تم نے زوہا کو لاوارث سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کر لی مگرآئندہ ایسی جرات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا۔ تمہاری ساری حرکتوں کا علم ہے مجھے اور اگر میرا رپورٹر دوست انہیں منظر عام پر لے آیا تو تمہارے کیرئیر کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس لیے زوہا سے دور رہنا۔" حمزہ کا سنجیدہ انداز اور مضبوط لہجہ اسے چپ کرا گیا تھا۔

"ہاں ، میں تمہارے والد کو فون کرکے آیا تھا۔ وہ اب تمہیں ہی فون کر رہے ہوں گے۔"

جانے سے پہلے اس نے احرار کو اطلاع دی۔ زوہا اپنے آنسو صاف کرتی کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔ اس کے اشارے پر فوراً ہی کچھ فاصلے پر کھڑی اس کی گاڑی میں بیٹھ گئ۔ احرار فاروقی نے غصے سے دور جاتی گاڑی کو دیکھا اور جیب سے نکالتے فون کو جس پر اس کےباپ کو فون مسلسل آرہا تھا اور موبائل سائلنٹ پر ہونے کی وجہ سے وہ بے خبر رہا تھا۔

"تمہیں احساس ہے کہ تم کیا کرنے جا رہی تھیں۔" گاڑی چلاتے ہوئے ان کے درمیان خاموشی کو حمزہ کی آواز نے توڑا تھا۔ باہر کے مناظر دیکھتی زوہا نے چہرہ موڑ کر اپنے سے کچھ فاصلے پر بیٹھے سنجیدہ چہرے والے حمزہ کو دیکھا۔ اتنا سنجیدہ تو وہ کبھی نہیں ہوا تھا۔

" جس کیفیت میں تھی ، اس میں مجھ سے یہ غلط فیصلہ ہوگیا۔" وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

"کیفیت، ہاہ!" حمزہ نے استہزائیہ انداز میں کہا۔

" انسان کو اتنا جذباتی اور جلد باز نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اسے آپ کی کمزوری سمجھنا شروع کردیں۔ آج اگر عنایہ مجھے فون نہ کرتی تو جانے کیا ہوتا۔ سوچا ہے اگر آج کچھ برا ہو جاتا تو آنٹی پر کیا قیامت گزرتی۔" اس کے کلاس لینے پر زوہا بھی تپ گئ۔

" آپ کیوں غصہ کر رہے ہیں۔ یہ میری زندگی ہے میری مرضی۔ آپ کو کیا پتا کن محرومیوں میں زندگی گزری ہے میری۔ جب آپ کو اس حال میں پہنچانے والے خوش اور پرسکون زندگی گزاررہے ہوں تو کسی کروٹ چین نہیں آتا۔"

اندر سے چاہے وہ اس کے آنے پر کتنی ہی ممنون تھی مگر اس کی باز پرس پر وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔؎

"اب آگیا چین۔" اس نے طنز کیا۔

" روکیں گاڑی۔ اس نے نا سمجھی سے زوہا کو دیکھا۔

" روکیں ورنہ میں کود جاؤں گی۔ " اشتعال انگیز لہجے میں بولتے ہوئے اس نے گاڑی کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو حمزہ نے جلدی سے گاڑی روکی۔ وہ باعجلت دروازہ کھول کر نیچے اتری۔ حمزہ اس کی حرکت سمجھتا خود بھی اس کے پیچھے اترا۔

" یہ کیا بیوقوفی ہے۔" اس کے سرخ چہرے کو دیکھتا وہ پوچھنے لگا۔

" میں خود جاسکتی ہوں ۔" وہ ضدی انداز میں بولی۔

"اور میں  تمہیں اس سنسان سڑک پر چھوڑ کر جاؤں گا۔ چپ کر کے گاری میں بیٹھو زوہا۔ اور اگر اب ایک لفظ بھی بولیں تو میں ابھی آنٹی کو فون ملاتا ہوں۔" اس کی دھمکی پر اسے گھورتی ہوئی وہ واپس گاڑی میں بیٹھی۔ سچ تو یہی تھا کہ یہاں وہ اس وقت اکیلی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ گاڑی آگے بڑھاتے حمزہ نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو ٹھنڈا کیا اور جب بولا تو لہجے میں سنجیدگی و متانت تھی۔

 


"کبھی کبھی جیسے ہی نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ۔دور سے جو چیز جتنی خوشنما اور مکمل دکھائی دیتی ہے حقیقت میں نہیں ہوتی ۔"

اس نے جواباً رُکھ موڑ لیا اور وہ محض اسے دیکھ کر رہ گیا ۔باقی فاصلہ خاموشی سے کٹا ۔گھر کا بیرونی دروازہ عالیہ بیگم نے کھولا ۔

"کہاں تھی زوہا ؟"انہوں نے چھوٹتے ہی سوال کیا ۔اسے حمزہ کے ساتھ دیکھ کر وہ حیران ہوئیں۔اس کے بولنے سے پہلے حمزہ بول پڑا تو اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ لئے ۔اب یہ پورا قصہ سنائے گا ۔

"آنٹی انہیں جو نیورسٹی میں دیر ہوئی تو گاڑی بھی مس ہوگئی ۔میں راستے میں ملا تو میں نے کہا میں چھوڑ دیتا ہوں ۔بس اتنی سی بات ہیں آپ یوں ہی ہیں پریشان ہو رہی تھی ۔"اس کے حیران چہرے پر ایک نگاہ ڈالتا ہے وہ انھیں اطمینان دلا رہا تھا۔چہرے پر اب وہی مخصوص نرم مسکراہٹ تھی۔

 


یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اریباکی کچھ کتابیں خریدنے آگئی تھی۔خریداری کر کے باہر نکلی تو بات بھی دوستی ٹریفک کو دیکھ کراکتاہٹ کا شکار ہوئی۔جہاں سے سواری کا ملنا خاصا مشکل امر ثابت ہونے والا تھا۔ 

یہی سب سوچتے نگاہ غیر ارادی طور پر کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی سے اترتی لڑکی پر پڑی ۔جو نیچے اتر کر اس سڑک کی جانب مڑ چکی تھی ۔اس کے ہاتھ سے بیند بینگ فیصلہ تو وہ اسے پکڑنے کے لئے نیچے جھکی ۔زوہا نے اس پر سے نگاہ ہٹانی چاہی مگر چونک گئی وہی ایک دم سیدھی ہو کر آگے کی جانب بڑھی تھی۔وہ اپنی بے وقوفی میں یقیناً کسی گاڑی کے نیچے آ سکتی تھی ۔زوہا تیزی سے اس کی جانب بھاگی۔مگر اس کے پہنچنے تک ایک گاڑی تیزی رفتاری سے آتی ٹکر مار چکی تھی ۔

ڈرائیور نے بریک لگائی مگر اسے نقصان نہ بچا سکا ۔زوہا اس کے قریب پہنچی تو وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔ سر بونٹ سے ٹکرانے کی وجہ سے ماتھے پر چوٹ آئی تھی ۔جس سے خون بہہ رہا تھا اور بازو پر بھی زخم تھا ۔

زوہا ہاں نے پریشانی سے گاڑی والے کی طرف دیکھا جو پہلے تو بوکھلایا پھر گاڑی دوسری جانب سے بھگا لے گیا ۔اس کے ساتھ ہی اس کی گاڑی میں بچتے تیز میوزک کی آواز بھی غائب ہو گئی ۔اسے دل میں کو ستے ہوئے وہ پیچھگے مُڑی تو ایک شخص بھاگتا ہوا قریب آیا ۔

"یہ بی بی تو کیا ہو گیا ہے ؟"وہ خود گھبرا گیا تھا ۔ وہ اس کا ڈرائیور تھا ،اسے مختصر بتا کر اس نے اس کی مدد سے لڑکی کو گاڑی میں ڈالا اور کچھ سوچ کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔گاڑی قریبی اور خاصے بڑے ہسپتال کے سامنے رکی ۔وہ اس کے چیکپ جب تک باہر ہی ٹہلتی رہی۔ پھر ڈرائیور کو اس کے گھر کی اطلاع دینے کا کہہ کر وہ نرس کے بلانے پر اس کے کمرے میں گئی ۔وہ شاید ہوش میں آ رہی تھی ۔زوہا خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔

اس نے آنکھیں کھولیں۔کچھ لمحے اس کی ساکت نظریں چھت کی جانب ٹکی رہیں۔پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے بستر کو ٹٹولا اور اس کی حرکت پر زوہا کا کھلتا منہ بند ہوگیا ۔تو کیا وہ نابینا تھی؟اور دوسرے پل اس کا جواب مل گیا تھا۔ 

"کوئی ہے۔ میں کہاں ہوں؟"اس کی موجودگی کو شاید اس نے محسوس کیا تھا ۔

"میں زوہا ہوں۔آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا سڑک پر ۔تو میں آپ کے ڈرائیور کے ساتھ آپ کو ہوسپیٹل لے آئی ۔" زوہا نے نرمی سے کہتے اس کی طرف قدم بڑھائے۔

"شکریہ آپ کا ۔میری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی ۔"

"مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔مگر آئندہ احتیاط کرنا یوں صرف کراس کرنے کی کوشش مت کرنا ۔"اس نے تنبیہ کی ۔

میں تو یوں ہی دل بے چین ہونے پر باہر نکلی تھی ۔پھر لگا جیسے کسی نے پکارا ہے تو بے اختیار قدم اٹھا بیٹھی ۔بلال مجھے کس نے پکارنا تھا۔"ہونے سے مسکراتے ہوئے اس کے معصوم چہرے پر اداسی پھیلی ۔

"اچھی لڑکی ۔نام تو بتایا نہیں تم نے ۔' زوہا پیار سے بولی۔وہ اسے بالکل اریبہ کی تنہا سادہ اور معصوم نہیں تھی ۔

"آئرہ ۔"

"بہت پیارا نام ہے ۔"بے ساختہ تعریف کی ۔

"تھینک یو ۔آپ بے شک چلی جائیں ۔میں اب ٹھیک ہوں ۔آپ کا وقت ضائع ہوگا خواہ مخواہ ۔"

"مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور تم تو بالکل میری چھوٹی بہن کی طرح ہو۔"زوہا نے کہتے ہوئے اس کی کلائی نرمی سے پکڑی ۔

"درد ہو رہا ہے تو بلاؤں میں نرس کو۔"اس نے نفی میں سر ہلایا ۔

"آپ بہت اچھی ہیں زوہا ۔"اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہے لی میں جو اس کی طرح خوبصورت تھی ۔

"اچھا ۔"وہ بھی مسکرا دی ۔اس کا ہاتھ اس نے پکڑ رکھا تھا ۔"تمہارے گاڑی اطلاع دے دی ہوگی ڈرائیور نے بس آتے ہی ہوں گے ۔وہ اس کی پریشانی کا سوچ کر بولی۔تو اس کا چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔

"گھر ،گھر میں کوئی ہوتا ہی کب ہے اور جو ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اس نے لب بھینچ لیے ۔بات ادھوری رہ گئی ۔‏دروازہ کھول کر کوئی با عجلت اندر آیا تھا۔ اور اندر آتے شخص کو دیکھ کر وہ اس کا ہاتھ چھوڑتی جھٹکے سے اٹھی تھی ۔آیان عزیز کو دیکھتی ہوں جیسے اپنی جگہ پر سن ہو گئی تھی ۔وہ پریشان سا اس کی جانب بڑھا تھا ۔

"آئرہ ،گڑیا کیا تم ٹھیک ہو ۔چوٹ زیادہ تو نہیں آئی ۔"وہ اس کی فکر میں جیسے بے حال ہو رہا تھا ۔

"آیان بھائی ۔" اس کی موجودگی کے احساس سے آئر کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔

"میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا۔"

وہ اس کی تسلی کروا رہی تھی۔ مگر وہ غیر مطمئن سا اس کا زخم دیکھ رہا تھا۔ دھچکے کی کیفیت سے وہ باہر نکلی تھی اس سے پہلے کہ وہ کا تعارف کرواتی ۔وہ آگے بڑھی۔ عجیب بے چینی سے محسوس ہو رہی تھی۔  اور اس کیفیت کو وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔یکدم پکارنے پر وہ رُکی۔سر اٹھایا تو سامنے ڈاکٹر سیمی کھڑی تھی ۔

"زوہا ، عنایا کی دوست ہونا ۔"وہ جیسے پہچان کر خوش ہوئی ۔وہ ایک بار عنایہ کو دیکھنے یہاں آئی تھی جب وہ یہاں ایڈمٹ تھی اور ڈاکٹر سیمی سے خاصی گپ شپ ہوئی تھی ۔

"تم آئرہ کےساتھ آئی تھی ۔" اس کے کمرے سے نکلنے پر وہ سمجھ گئی تھی ۔زوہا نے خود کو سنبھالتے ہوئے سر ہلایا ۔

"آیان سے ملی تم؟"۔آئرہ کا بھائی ہے ۔چھوٹے سے تھے تب سے دیکھ رہی ہوں دونوں کو ۔"اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ خود ہی شروع ہوگئی۔زوہا ان کی باتونی طبعیت سے اچھی واقف تھی ۔

"بہت دکھ دیکھے ہیں ان بچوں نے۔ بسارا قسمت کا کھیل ہے ورنہ کیسی شان و شوکت والے لوگ تھے ۔آئرہ کا بچپن میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس میں اس کی بنائی چلے گی ۔بہت علاج کروایا ہے۔باہر کے ملکوں میں بھی گئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ڈاکٹرز نے بھی یہی کہا کہ آپریشن کا بھی فائدہ نہیں ہوگا ۔"ڈاکٹر سیمی بولتی جا رہی تھیں اور وہ چپ چاپ سن رہی تھی ۔

"مسز عزیز اپنی اکلوتی بیٹی کو دیکھ کر وہ دکھی ہوتی تھی ۔پھر آیان کی زندگی میں جو کچھ ہوا وہ بھی کم نہیں تھا ۔"زوہا نے چونک کر اسے دیکھا ۔

"کیا ہوا تھا ؟"اس کے منہ سے پھسلا۔

"یونیورسٹی میں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی ۔عزیز صاحب نے بیٹے کی مرضی کو اولیت دیتے ہوئے شادی کر دی ۔مگر وہ لڑکی بہت لالچی اور کچھ زیادہ ہی آزاد خیال تھی ۔آیان کی بیوی ہو کر اسے دھوکا دیتی رہی ۔بڑی عجیب سی بات تھی ۔بہت بار اس نے مسٹر عزیز اور مسز عزیز کو شرمندہ کروایا تھا ۔شادی کے تین سال بعد وہ طلاق لے چکی تھی۔

پھر پانچ مہینے بعد ہی اس کی شادی کی خبر سننے کو آئی ۔خاصا پیسہ بنا گئی تھی وہ ان فیملی سے ۔آیان تو بالکل ہی بدل کر رہ گیا تھا ۔عجیب دیوانوں والا حال ہو گیا تھا ۔

دو بار تو اس نے اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی ۔مسز عزیز دوروں پر بحال ہوتی تھیں۔عزیز صاحب الگ پریشان تھے ۔دو سال بعد ایک سائکیٹرسٹ کے سیشنز سے اس میں کچھ بہتری آئی اس کی چار سال بعد عزیز صاحب کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ایک مہینہ وہ کومے میں رہے۔اس دوران مسز عزیز کا دماغی توازن بگڑ گیا ۔ تب سے اب تک وہ ہوش و حواس میں نہیں رہتی ۔عزیز صاحب کومے سے تو آپ گئے مگر دو مہینوں میں ہی ہارٹ اٹیک سے ان کی دیتھ ہوگئی ۔بڑی ہی درد ناک کہانی ہے اس فیملی کی ۔ورنہ ان بیچاروں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ " افسوس سے کہتے انہوں نے قصہ ختم کیا اور اسے اندر چلنے کو کہا ۔

"میں چلتی ہوں ۔مجھے دیر ہو رہی ہے ۔"تیزی سے کہتی ہوئی وہ ان کی بات سنے بغیر باہر کی طرف لپکی ۔بارشیں نکلتے ہی وہ ہسپتال کے لان کے ایک الگ تھلگ سے بینچ پر بیٹھ گئی ۔چہرہ بے حد سرخ ہو رہا تھا ۔تنفس یوں تیز ہو رہا تھا گویا میلوں کی مسافت طے کر کے آئی ہو۔ایک دم بہت سے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے ۔

وہ ساری زندگی اس بات پر کڑھتی رہی تھی ۔شکوہ کرتی رہی تھی اپنے رب سے کہ اس کی ماں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ، اس کے حق پر قبضہ کرنے والے اس کی زندگی جی رہے جبکہ وہ غربت اور محرومی والی زندگی سے سمجھوتا کیے ہوئے تھی۔مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ زندگی مکافات عمل ہے ۔وہ بھول گئی تھی کہ کسی کو اذیت دینے والا خود بھی کسی نہ کسی صورت اذیت کی بھٹی میں سلگتا ہے اور انسان کتنا نادان ہے جو یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت کا سکہ اس پر الٹا بھی پڑسکتا ہے ۔

آج اس سے رونا آ رہا تھا اپنے ناشکری پر،آپ نے اس سارے شکوے پر جو وہ آج تک اپنے رب سے کرتی آئی تھی ۔اس بینچ پر بیٹھے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس لڑکی کا دل بھی جیسے پگھل رہا تھا ،سالوں کی نفرت گویا ان آنسوؤں کے ساتھ ہی بہہ گئی تھی جو اسے ہلکا پھلکا کر گئی تھی ۔

 


"تم کیس واپس لے رہی ہو ؟" عنایا میں نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ایک ہی دن میں ایسا کیا ہوگیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئی تھی ۔

"وقت اور پیسہ برباد کرنے کا کیا فائدہ اور پھر جب باپ کی شفقت ہیں نصیب میں نہیں تھی تو ان کی جائیداد لے کر کیا کروں گی ۔جن کے پاس ہے وہی خوش رہیں ۔"وہ اتنی سنجیدگی سے بولی تھی کہ اس کی جانب دیکھتی انعم اور عنایہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ بول ہی نہ پائیں ۔

"یہ فیصلہ تو یہ کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا ۔"عنایہ کہا تو انعم نے بات بدل دی اس کے پاس آج کل اپنی شادی کا موضوع تھا جو کہ ان کے امتحانوں کے بعد ہونی تھی ۔شام میں کلاسز ختم ہونے کے بعد وہ یونیورسٹی سے باہر نکل رہی تھیں جب حمزہ کے قریب آ کر سلام کرنے پر چونکیں۔

ان دونوں کا حال احوال پوچھتا وہ ہمیشہ کی طرح خوشگوار موڈ میں تھا ۔بات کرتے اس کے انداز میں احترام سا جھلکتا تھا جسے زوہا نے آج محسوس کیا تھا ۔

"اگر آپ لوگ برا نہ مانے تو میں آپ کی دوست سے کچھ بات کر سکتا ہوں ۔"اس کے اجازت لینے والے انداز پر وہ مسکرائیں۔

"ہماری طرف سے اجازت ہے ۔" انعم شاہانہ انداز میں بولی ۔پھر وہ دونوں ہاتھ ہلاتی چلی گئیں۔

"جی تو مس زوہا عزیر! مسلہ کیا ہے آپ کے ساتھ ۔"ہاتھ میں پکڑی کتابوں کو سینے سے لگاتے ہوئے اس نے اچھنبے سے حمزہ کو دیکھا جس کی آنکھوں میں شرارت تھی ۔

"اب یہ شوشہ چھوڑ نے کی کیا ضرورت تھی کہ میرے علاوہ کسی سے بھی شادی کرنے کو تیار ہیں ۔آنکھیں مجھ کو ہی ڈی گریڈ کرنے کا تہیہ کیوں کر لیا ہے  ۔ حالانکہ میرے خیال میں اچھا شوہر بننے کی ساری خصوصیات میرے اندر موجود ہیں۔"

زوہا سٹپٹائی ،کل ہی اس نے عالیہ بیگم سے یہ بات کہی تھی ۔وہ اس کی سٹپٹاہٹ پر خاصہ محظوظ ہوا تھا۔

"آپ اب بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں َ؟اگلے لمحے وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔

"اب کیا ہوا ہے ۔"

"آپ جانتے ہیں میں احرار فاروقی سے نکاح کرنے جا رہی تھی اور۔۔۔۔۔" حمزہ ان میں سے اس کی بات کاٹی ۔

"نکاح کرنے جا رہی تھیں،کیا تو نہیں نا۔اپنا فیصلہ تو تم وہی بدل چکی تھی ۔تم ایک مضبوط کردار کی لڑکی ہو زوہا ۔یہی وجہ ہے کہ ان جیسے بندے نے تمہیں نکاح کیا فرض کیوں کی وہ جانتا تھا کہ جس  جذبات کے تحت تم اس کے پاس گئی تھی ،اس کی ناجائز کی مانگ پر اس پر لعنت بھیجتی واپس بھی چلی جاتی اور جہاں تک میری بات ہے تو مجھے سر اٹھا کر چلنے والی زوہا سے محبت ہوئی ہے ۔میں کبھی بھی کبھی اس کو سر جھکانے پر مجبور نہیں کروں گا ۔ "اس نے بے ساختہ جو کی پلکیں اٹھا کر حمزہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھا تھا ۔

"اب اتنی تعریف کافی ہے یا مزید کچھ کہنا پڑے گا ۔"اگلے لمحے وہ اپنی جون میں لوٹ چکا تھا ۔"ویسے تو تم جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی اکھڑ بھی ہو مگر گزارہ کر لوں گا ۔خاصہ شریف انسان ہوں ۔"اس بار زوہا نے اسے پورا مگر اس کے ہنسنے پر وہ بھی مسکرائی ۔

"آہم۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ مسکراتے اچھے لگتے ہیں بس ذرا کنجوسی دکھا جاتے ہیں ۔"چادر کے ہالے میں اس کا دمکتا چہرہ دیکھتا ہوں شوخی سے بولا ۔

 


کاؤنٹر پر کھڑی اس لڑکی کو وہ مشکل سے ہی سہی مگر پہچان گیا تھا ۔یہ وہی تھی جو اس کے ساتھ پارک آیا کرتی تھی ۔اس لڑکی کے مڑنے پر وہ اس کے پیچھے لگا ۔

"ایکسکیوزمی مس! آپ آئرہ کے ساتھ پارک آتی تھی نا ۔"اس کے سوال پر اس نے سر ہلایا وہ بھی اسے پہچان گئی تھی ۔

"آئرہ کہاں رہتی ہیں آپ بتا سکتی ہیں ہیں ۔"

"سر آئرہ میم یہاں ایڈمٹ ہیں ۔"عماد کے چہرے پر پریشانی کی لکیر ابھری۔وہ بے قراری سے بولا ۔

"کیا ہوا آئرہ کو ؟"

"وہ ٹھیک ہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ان کا ۔باقی تفصیل بتاتی وہاں سے آئرہ کے کمرے تک چھوڑ گئی تھی ۔دروازہ انگلی سے بجاتا وہ اس کی "یس"کی آواز پر اندر داخل ہوا تھا ۔

"کون ہے ؟"خاموش قدموں کی آواز پر وہ الجھی۔

عماد اس کے بستر کے قریب رکا ،اس کی ماں تھی اور دائیں کلائی پر پٹی بندھی ہوئی تھی ،نرم و ملائم چہرے پر وہی معصومیت تھی ،تکیے سے ٹیک لگائے وہ آنے والے کی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ۔اس کے فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونے کے باوجود اس کے مخصوص کلون کی خوشبو اس پر پہنچ گئی ۔

"آپ ، آپ یہاں کیسے۔" بے ساختہ منہ سے پھسلا۔

"اس دن تم کوئی بھی بات سنے بغیر چلی گئی ۔"ایسے بھی کوئی کرتا ہے ۔"اس نے شکوہ کیا ،انداز خفگی لیے ہوئے تھا ۔

"مجھے آپ کی ہمدردی نہیں چاہیے ۔"آئرہ نے گلابی لب کاٹے ۔

"فون کر رہا تھا ہمدردی ۔ہمدردی اور محبت میں فرق نہیں کر سکتیں۔"عماد کے بے ساختہ اظہار نے اسے خاموش کر دیا۔

"میں سائیکاٹرسٹ ہوں نا سائیکالوجسٹ ۔میں میڈیسن میں سپیشلائزیشن کر رہا ہوں مگر کیا میرا ڈاکٹر ہونا یا سائیکولوجی کی کتاب رکھنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ تم یوں روٹھ گئی ۔"

"بس رہنے دو تم ۔میں تمہارے بھائی سے خود بات کر لوں گا ۔"اطمینان سے بولتا ہوں وہ حسیں پر بیٹھا ۔جب کہ وہ بے چین سے اس کی آواز کی سمت مڑی۔ 

"آیان بھائی سے کیا کہیں گے ۔میں راضی ہوں ۔آپ انہیں کچھ نہ کہییں۔"

"اونہوں۔تم پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ بائی دا وے تمہاری رضا مندی کی ضرورت آگے پڑے گی ۔پہلے مجھے شادی کی بات تو کر لینے دو ۔"وہ محظوظ ہو کر بولا ۔

"شادی کس کی ؟"

"ہماری ۔"

"یہ ممکن نہیں ہے ۔"نفی میں سر ہلا تی وہ رکھ گئی ۔

"میں اور آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت فرق ہے ہم میں ۔ میں اپنے اس ادھورے پن کے ساتھ آپ سے شادی نہیں کر سکتی ۔"

"آئرہ اپنی ذات میں ہم سب ہیں نا مکمل ہوتے ہیں ۔کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ۔ہم مل کر ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں ۔"اس بار وہ سنجیدگی سے بولا ۔

"آپ تھک جائیں گے ۔"اس نے جواز تراشا ۔

"پرومس ،ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔"اس کا لہجہ مضبوط تھا ۔

"میری ماں اپنے آخری دنوں میں بیمار تھیں۔بیماری کے ساتھ ایک حادثے میں ان کی بنائی بھی چلی گئی تھی ۔مگر اس عرصے میں ، میں ان کی آنکھیں بن گیا تھا جس سے وہ دنیا کو پھر سے دیکھنے لگی تھیں۔"

ماں کے ذکر پر وہ افسردہ ہوا تھا ۔مگر کچھ لمحوں بعد ہی وہ ہشاش بشاش کھڑا تھا ۔

"بس تو پھر ٹھیک ہے میں بھائی صاحب سے بات کرتا ہوں اور ان سے کہوں گا کہ اپنی بہن سے رائے ہرگز مت لیں ۔"

"آئرہ پلیز ۔"اس کے التجا یا لہجے پر وہ خاموش پڑ گئی ۔

"اتنی فرمابرداری شادی کے بعد بھی دکھاؤں گی نا ۔"اس کا مسکراتا شرارتی نہ جہاں سے بے اختیار ہنسنے پر مجبور کر گیا تھا اور اس کی خوبصورت ہنسی کو دیکھتا وہ مسرور ہو گیا تھا ۔

 


"واؤ! بہت خوبصورتی سے سجایا ہے ۔دے کر اندازہ ہو رہا ہے کتنے دل سے کام کیا ہے ۔"میٹنگ روم کے انٹیریئر کو ستائشی انداز میں دیکھتے  زوبی نے سراہا ۔پھر اس پر نگاہ پڑی جو خاموشی سے اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی ۔چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی رقم تھی ۔

"کچھ کہو گی نہیں ۔"زوبی نے اچھنبے سے کہا ۔

'سوچ رہی تھی ۔بچپن کی عادت ہے ،غلط جگہ دل لگا بیٹھی ہوں ۔" زوبی تھٹکی ایسی بات تو اس نے کبھی نہیں کی تھی پھر اب ۔

"پریسہ ! کیا ہوا ہے ۔تم ٹھیک ہو ؟" وہ اس کی بہت پرانی اور گہری دوستی تھی اس کے لہجے کا بدلاؤ اسے فورا محسوس ہوا تھا ۔

"آیان نے کچھ کہا ہے ۔"

"آیان۔" وہ زخمی سا مسکرائی اور میز کے گرد پڑی ریوالونگ چئیر پر بیٹھ گئی ۔"زوبی اس کی جانب کرسی کھینچ کر اس پر ٹک گئی ۔

"آیان عزیر اس گلیشیر کا نام ہے جو پیپل نہیں سکتا ۔"

دروازے کے ہینڈل پر رکھا آیا کا ہاتھ وہی ٹھہر گیا تھا ،میٹنگ نیوز ساؤنڈ پروف تھے مگر چونکہ دروازہ آدھا کھلا تھا اس لیے وہ اپنا نام سن کر ٹھٹک گیا ۔

"تم صحیح کہتی تھی زوبی ! میں ہی بے وقوف تھی جو اس کی آس دل سے لگائے بیٹھی رہی ۔میں اس کے لیے اتنی غیر اہم ہوں کہ اس کے مائنڈ سے سلیپ ہوگئی۔ وہ مجھے یاد بھی رکھنا نہیں چاہتا ۔"

وہ زخمی انداز میں ہنسی،آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے مگر اسے پرواہ نہیں تھی ۔روی کو تکلیف ہوئی مگر وہ خاموش رہی ،اچھا تھا وہ اپنی اندر کا غبار نکال لیتی ۔

"اسے تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ ہم نے ساتھ کتنا وقت گزارا تھا ۔مما اور آنٹی کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی ،ہم ان کے گھر جاتے تو اس کے عجیب و غریب کھیل میں ،میں اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ،شروع میں کتنی بار اس نے مجھے سائیکل سے گرا دیا،میری ڈولز وہ پینٹ کر دیتا تھا۔اور وہ مجھے ہمیشہ اچھا ہی لگتا تھا۔پھر جب میں مما کے ساتھ کلب جانے لگی تو وہ میری دوستی بھول کر اوروں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ میں پھر بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ۔ وقت بڑھا تو ہمارے درمیان محض سلام دعا کا تعلق رہ گیا ۔ایک ہی کالج میں وہ سینئر اور میں جونیئر ہوگئی۔یونیورسٹی میں میں اپنے آٹھ کا شوق چھوڑ کر بزنس پڑھنے لگیں کیونکہ وہ بزنس پڑھ رہا تھا ۔"

دروازے کا ہینڈل پکڑے کھڑا آیان جیسے گنگ رہ گیا ۔نگاہیں حیرت سے اس لڑکی پر اٹھی تھی جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پر اسے احساس تک نہ تھا ۔

"پھر اس کی زندگی میں دانیا  آگئی ۔" بڑی سونے عزیز سے آنکھیں بند کرکے کھولیں ۔

"میں نے یونیورسٹی چھوڑ دیا اور اس نے دانیا سے شادی کرلی ۔اس وقت تم ہی تھیں نا زہبی جس نے مجھے سمجھایا تھا۔ پھر میں نے اپنے دل کو سمجھا کر آرٹس پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنا دل بہلایا تھا مگر دانیہ اس کی زندگی سے چلی گئی تو مجھے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قدرت نے میری جگہ بنانے کے لیے دانیا کو اس کی زندگی سے نکال دیا۔

بہت سا صبر اور لاحاصل انتظار کیا ہے میں نے ۔مگر سچ تو یہ ہے کہ میں اسے کبھی نظر آئی ہی نہیں ۔"اس نے بے دردی سے ہتھیلی سے چہرہ صاف کیا ۔

"پریسہ ! تم کہو تو میں آیان سے بات کروں ایک بار ۔"

"ہرگز نہیں ۔" اس نے درشتی سے اس کی بات کاٹی ۔"خود کو بے مول کرنا ہوتا تو بہت پہلے کر چکی ہوتی ۔اب میں نے فیصلہ کیا ہے ۔مما کو اور تنگ نہیں کروں گی ۔وہ جس سے کہیں گی شادی کر لوں گی اور کوشش کروں گی کہ اس کے ساتھ وفاداری نبھاؤں اب اور قسمت سے نہیں لڑ سکتی ۔"

تھکے تھکے انداز میں اس نے بات ختم کی ۔ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈال کر وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ واپس مڑ گیا ۔

 


اسٹیج کے قریب اس قدر شور تھا کہ اسے فون پر دوسری جانب سے آتی آواز سننے میں دشواری ہو رہی تھی ۔دلہا دلہن پر نگاہ ڈالتی وہ اسٹیج سے اتر کر ہال کے درمیانی روش پر چلتی خاصے فاصلے پر آگئی ،اس حصے کے بائیں جانب وہ دیوار ختم ہوتی تھی جس سے مردوں اور عورتوں کے حصے الگ کئے گئے تھے ۔فون پر بات کرتی ہوں چند قدم اور آگے جا کر رک گئی ۔دوسرے حصے کے آخری میز پر بیٹھے اس شخص کی نظر اس پر پڑی تو وہ ٹھٹکا،کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد اس کے قدم اس کی جانب اٹھے ۔

مسرور سے انداز میں بولتی وہ یک دم خاموش ہوئی تھی ،سامنے کھڑے شخص کو سنجیدگی سے خود کو دیکھتے پاکر اس نے خود کو سنبھالتے فون بند کر دیا ۔

"مس عنایا مرتضی۔اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہی نام ہے آپ کا۔"اس کے لہجے میں طنز کی چھبن محسوس کی جا سکتی تھی۔

"بالکل میں عنایہ ہی ہوں۔" 

"جلدی مان گئیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دین کو آنٹی میں آپ مجھے دے کر چھپنے کی کوشش کر رہی تھی اور میں اسی روز جان گیا تھا کہ آپ مرتضیٰ صاحب کی بیٹی ہیں ۔مگر آپ کی اس حرکت کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔یہ تو سنا تھا کہ ینگسٹرز کو ایڈونچرز کا شوق ہوتا ہے مگر اس طرح بے فائدہ ایڈونچر کا مقصد ۔

"آپ اس شادی میں کیا کر رہے ہیں ؟" عنایہ کا سوال غیر متوقع تھا ۔

"یہ میرے دوست کی شادی ہے ۔"

"آپ کے دوست کی شادی زوہا عزیر سے ہو رہی ہے جو کہ آپ کے والد کی دوسری بیوی کی اولاد ہے اور آپ کے نام آنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی ۔یہ سچ ہے کہ میں آپ سے زوہا عزیر بن کر ملی تھی کہ میں آپ سے ملوں سنا کے میں جانتی تھی کہ آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔مگر بن باپ کے غربت میں زندگی گزارنے والی اس لڑکی کو لگتا تھا کہ وہ آپ کو چونکانے میں کامیاب ہوجائے گی اور اس کی ان کوششوں سے اسے اس کا جائزحق مل جائے گا ۔پر جلد ہی وہ جان گئی کہ اس کا کیس کس قدر کمزور تھا ۔آخری کیل اپنی چھوٹی بہن سے ملاقات نے ٹھونک دی ،اسی لیے اس نے کیس واپس لے لیا ۔"

اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو مضبوطی سے بولی ،آخری الفاظ پر وہ چونکا تھا ۔

"اس روز آئرہ عزیر کو ہاسپیٹل لے جانے والی بھی زوہا عزیر ہی تھی ۔"

" عنایا! یہاں کیوں کھڑی ہو بیٹا ؟ " عالیہ بیگم کی آواز پر دونوں متوجہ ہوئے ۔

"میں آ رہی تھی آنٹی ! آپ کو مبارک ہو آپ کی ذمہ داری تو پوری ہوئی ۔" عنایا نے بظاہر ان سے کہتے ہیں ان کو دیکھا جو چونک کر ان سو برسی خاتون کو دیکھ رہا تھا ۔

"اللہ کا شکر ہے ۔بس اب اریبہ کے فرض سے بھی فارغ ہو جاؤں تو اپنی بہن کے سامنے سرخرو ہو سکوں گی ۔میرے مشکل وقت میں اس نے بڑا سہارا دیا تھا مجھے ۔"

تشکر سے کہتیں، اپنی نم آنکھیں پونجھتیں وہ آگے بڑھ گئیں ۔ عنایا بھی ان کے ساتھ ہو لی جب کے پیچھے کرے آیا نا وزیر کو عجیب سے احساسات نے گھیر رکھا تھا ۔ایسا کیا تھا اس کے ماں باپ کے ماضی میں جس نے انہیں ہمیشہ پریشان رکھا تھا اور جس سے وہ آج تک بے خبر تھا ۔

 


آج جب میں اپنے بچوں کے چہروں پر تکلیف اور بے چینی دیکھ سکتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بڑھ جاتا ہے ،اولاد کو تکلیف میں تڑپتا دیکھنا جان لیوا ہوتا ہے اور میں ہرگزرتے پل اس کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں ۔سیانے کہتے ہیں ایسے وقت میں اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے اور میں یہ کوشش کرتا ہوں تم ماضی کے دھندلکوں میں ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے ۔

عالیہ فروز کا چہرہ ،وہ مظلوم لڑکی جیسے اس کی بدقسمتی نے میری زندگی میں شامل کیا ۔

کبھی زندگی بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی خصوصا تب جب میں اور ضوفشاں ایک شادی میں ملے تھے ۔ضوفشاں میرے سوتیلے ماموں کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی ۔اس سے شادی کے بعد دونوں خاندانوں کے روابط بڑھنے لگے اور ساتھ میں ہماری وابستگی بھی ۔وہ تھی ہی اتنی حسین کہ میں پہلی بار اسے دیکھ کر پلکیں جھپکانا بھول گیا تھا ۔پھر اس کے مثبت رویے نے مجھے مزید حوصلہ دیا تھا ۔ہمارے گھروں کو جلد ہی ہماری پسندیدگی اور پھر اس جذبے کے محبت میں بدلنے کا علم ہو گیا ۔کسی کو اس شادی پر اعتراض نہیں ہوا تھا ۔

ہماری شادی خاصی دھوم دھام سے ہوئی تھی ۔ایک دوسرے کی سنگت میں ہم بہت خوش تھے ۔زندگی اتنی حسین کبھی نہیں لگی تھی جتنی ان دنوں لگنے لگی تھی ۔شادی کے پہلے پانچ سال ہماری زندگی کے بہترین سال تھے ۔میری والدہ بارہا ہماری زندگی میں موجود اولاد کی کمی کا ذکر کرتی مگر میں ٹال جاتا کہ یہ قدرت کے فیصلے ہیں ۔ یوسف قصہ آواز الفاظ پر بہل جاتی مگر اندر سے وہ بھی کچھ خائف رہنے لگی تھی ۔

چھٹے سال امی بضد ہوگی کہ میں اولاد کی خاطر دوسری شادی کر لوں۔ضوفشاں نے ایک طوفان مچا دیا ۔بابا جان الگ امی کے حامی بن گئے ۔ایک سال اسی تنازع میں گزر گیا ۔پھر کچھ خاندانی دباؤ اور لوگوں کی باتوں سے بد دل ہوکرضوفشاں میری شادی کرانے پر رضامند ہوگئی مگر اس کی شرط یہی تھی کہ لڑکی ہر لحاظ سے اس سے کم حیثیت ہونی چاہیے ۔میں شادی کے لیے ہرگز تیار نہ تھا مگرضوفشاں کے آگے مجھے ہار ماننی پڑی ۔

عالیہ فیروز ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جیسے امی نے ڈھونڈ نکالا تھا ۔اس کا باپ بیمار تھا اور ماں کا پہلے انتقال ہو چکا تھا ،ایک شادی شدہ بہن تھی جو اپنی پھوپھو کے گھر بیاہی گئی تھی اور وہ دوسرے شہر میں رہائش پذیر تھی ۔عالیہ دوسری بیوی بند کر رہا تو گئی مگر اسے وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جو اس کا حق تھا ۔وہ کم عمر اور سادہ سی لڑکی میرے لاتعلق روئے اورضوفشاں کے ناروا سلوک کے مستحق ٹھہری۔امی مجھے بارہا سمجھ آتی جس پر میں وقتی طور پر اس کے ساتھ اپنا رویہ درست کر لیتا مگر حقیقت مجھے اس عام سے شکل و صورت والے لڑکی سے حقیقتاً کوئی لگاؤ محسوس نہیں ہوتا تھا ۔

وقت کچھ اور گزرا تو ذوفشاں کی پوزیٹیو رپورٹ نے ہماری زندگیوں میں جیسے تہلکہ مچا دیا ۔ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔امی الگ کچھ شرمندہ سی تھی ۔اب ضوفشاں کسی طور پر عالیہ کو یہاں ٹکنے نہیں دینا چاہتی تھی ۔مگر یہاں امی آڑے آگئی ،آخر وہ اپنی ذمہ داری پر اسے بیاہ کر لائیں تھیں ۔میں نے اس سے بہلا کر خاموش کرا لیا ۔

آیان ہماری زندگیوں میں آیا تو اپنی خوشیوں میں میں یہ بھول ہی گیا کہ عالیہ بھی میری زندگی میں شامل ہے ۔زندگی تب تلخ ہوئی جب آیان دو سال کا ہوا تو بابا کا ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا ،امی بیمار رہنے لگی اور ان کی اس بیماری میں عالیہ نے ان کی بہت خدمت کی جس کا ذکر امی بار بار کرتی تو میرے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ بیدار ہونے لگتا ۔

چھ مہینے گزرے تو امی کا انتقال ہوگیا ۔یہاں سے زندگی نے پلٹا کھایا اور ضوفشاں نے عالیہ کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا جس سے میں نے سختی سے رد کر دیا ۔امی کی آخری وقت کی گئی نصیحت مجھے بھولی نہیں تھی ۔ضوفشاں کا رویہ عالیہ کے ساتھ دن بدن برا ہوتا چلا گیا ۔میں اسے دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ دونوں مجھ سے خفا رہتیں۔سچ یہی تھا کہ آگیا سے مجھے ہمدردی ضرورت تھی مگر ضوفشاں کی جگہ میں اسے کبھی نہیں دے سکتا تھا مگر وہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھی ۔

ایک روز اس کی کنتی کی وجہ سے عالیہ کا ہاتھ جل گیا ،میری بات پرس کرنے پر وہ عجیب جنونی سی ہوگئی۔اسرار ہماری زبردست قسم کی لڑائی ہوئی ۔اس نے مجھے کمرے سے نکال دیا ۔میں امی کے کمرے میں جا کر لیٹ گیا ۔ساتھ والے کمرے سے سسکنے کی آواز آئی تو میں نے جھانکا عالیہ جاۓنماز پر بیٹھی رو رہی تھی ۔دوپٹے کے حالی نے اس کا مسواک سا چہرہ میرا دل نرم کر گیا ۔اس کے جلے ہاتھ پر نظر پڑتے ہی میں دوا لے آیا ۔

تین لوگ یوں ہی گزر گئے ۔ضوفشاں مجھ سے مسلسل روٹی رہی اور میں اس کی ضد میں جاکر عالیہ کے کمرے میں سونے لگا۔جب ضوفشاں کو اس بات کا علم ہوا تووہ مجھ سے بہت لڑی ۔پھر یہ جیسے روٹین بن گئی ۔وہ علیہ کو تکلیف دینے کی کوشش کرتی اور میں اس کی زد میں اس کا  مداوا کرنے کی کوشش کرتا ۔ایک دن وہ مرنے مارنے پر پہنچ گئی تو میں نے بمشکل اسے سنبھالا ۔اور اس سے وعدہ کیا میں عالیہ سے دور رہوں گا ۔

ایک بار پھر میں نے عالیہ کی طرف سے جیسے آنکھیں بند کر لیں ،ضو فشاں کا رویہ دیکھ کر بھی میں انجان بن جاتا مگر دل میں نادم ہوتا ۔اس کی بے بس نظروں سے نگاہیں چرا تا ۔

اس روز میں تین دین بعد میٹنگ اٹینڈ کر کے گھر آیا تھا ۔شام کا وقت تھا اور ضوفشاں عجیب بے چین سی نظر آتی تھی ۔میرے پوچھنےٓ پر بھی وہ ڈالتی رہی تو میں نے عالیہ کو مخاطب کیا ۔اور مجھے اس سے بات کرتا دیکھ کر ضوفشاں آگ بگولا ہوگئی۔وہ بضد تھی کہ میں عالیہ کو ابھی اور اسی وقت طلاق دوں۔میں اس کی اچانک فرمائش پر ہکا بکا تھا ۔وہ اس قدر جنونی ہو رہی تھی کہ اس نے چھڑی اپنی کلائی پر رکھ لی ۔میں خود گھبرا گیا تھا ۔مگر وہ زلفیں تھیں اسے مجھ پر حکومت کرنا آتی تھی ۔اسی لئے تو اس مضمون لڑکی کے آنسو تک کام نہ آئے ۔میں نے اس کے منہ پر اسے طلاق دے دی ۔

وہ بہت طوفانی رات تھی اور ایسے میں ضوفشاں نے اسے گھر سے باہر نکال دیا اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کوئی مزاحمت کرتا ۔وقت کچھ اور آگے بڑھا تو ہم دونوں نے اس واقعے کو بھلا دیا ۔حقیقت یہی تھی کہ میں بہت خود غرض تھا ،مجھے زندگی میں آ جانے والے سکون سے مطلب تھا ۔کسی مظلوم کی زندگی کی بربادی سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔

خوشیوں کا دورانیہ بہت ہی مختصر تھا مگر ہم اس سے انجان تھے ۔آئرہ نے آکر ہماری زندگی کو جیسے مکمل کر دیا تھا ۔پھر جب ایک حادثے میں ایڈ کی بینائی چلی گئی تو ہم ایک نئی تکلیف سے روشناس ہوئے ۔کتنے سال ہم اس کا علاج کروانے کی کوشش کرتے رہے ،پیسہ پانی کی طرح بہا دیا ،مختلف ملکوں تک اسے لے کر گئے مگر کچھ حاصل نہ ہوا ۔

دوسرا جھٹکا ہمیں آیان کی جانب سے ملا ۔اس کی زندگی میں دانیا جیسی لڑکی کا آنا ،اسے دھوکہ دے کر چلے جانا اور اس پر آیان کی جنونی کیفیت ۔ہماری زندگی سے خوشیاں گویا روٹھ گئی تھی ۔ان دنوں میں چھپ کر رویا کرتا تھا ۔جوان بیٹے کی ایسی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی اور تب مجھے وہ یاد آئی تھی جس کا ایک دن بھی اس گھر میں سکون سے نہیں گزرا تھا ۔

ہمیں اس کی آہ لے بیٹھی تھی۔اس کے ساتھ کی گئی زیادتیاں ہمیں اور ہمارے بچوں کے آگے آ رہی تھی ۔لیکن انسان نادان ہے جو اس بات سے نظریں چراتا ہے ،وقت سب دکھاتا ہے بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے اور مجھے وہ آنکھ عطا کر دی گئی تھی ،بس یہی فرق تھا میری اور ضو فشاں کی تڑپ میں ۔

ایک روز مجھے الماری سے عالیہ کی رپورٹس ملی جو کہ پوزیٹو تھی ۔تب میری سمجھ میں آیا کہ اس سے روزضوفشاں کو کس چیز نے اتنا بے چین کر دیا تھا کہ وہ اسے نکال کر ہی رہی ۔میرے اندر کا احساس جرم بھر گیا مگر میں خاموش رہا ۔آیان بڑی مشکل سے اس کیفیت سے نکل پایا مگر وہ بالکل بدل چکا تھا جس کی جگہ سنجیدہ اور کاموں سے آیان نے لے لی تھی اور بدل تو میں بھی گیا تھا، تھا دل کا بوجھ بڑھ گیا تھا ۔

آج جب میں اتنے برسوں بعد اپنی زندگی کی کہانی دہرا رہا ہوں تو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ میں ایک کمزور مرد ہوں۔میں گھر کا سربراہ تھا جس سے ایک مضبوط حیثیت حاصل تھی مگر میں اس مرتبے کا اہل نہ تھا ۔نہ تو میں نے عالیہ کو اس کا جائز مقام دیا اور نہ ہی ضوفشاں کو اس پر ظلم کرنے سے روک سکا ۔آج جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل تڑپ اٹھتا ہے جانے وہ کہاں گئی ہو گی ۔زندہ بھی ہوگی یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میری اولاد یعنی اس کی قسمت میں زندگی تھی یا نہیں ۔میاں عزیر ہمدانی نہ صرف عالیہ کا بلکہ اپنے بچوں کا بھی مجرم ہوں اور اگر کبھی میری یہ تحریر کسی کو ملے تو وہ گوار ہے کہ میں ہاتھ جوڑ کر رب سے ،عالیہ سے ،آیان اور آئرہ سے معافی مانگتا ہوں ۔

                                    عزیر ہمدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کمزور انسان

؎ وہ خود ہی میں اتنی ہمت نہیں پا رہا تھا کہ اس چھوٹی سی ڈائری کو بند ہی کر دیتا جس میں اس کے باپ نے ایسے انکشافات کیے تھے کہ وہ تھرا  کر رہ گیا تھا ۔

 


اطلاعی گھنٹی کی بجلی پر وہ سر پر دوپٹہ درست کرتی بیرونی دروازے تک آئی ۔دروازہ کھولنے پر سامنے کھڑے ایان زیڈ کو دیکھ کر وہ دھنگ رہ گئی تھی ۔یہ تو اس نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ اس کے دروازے پر کھڑا ہوگا۔

"میں اندر آسکتا ہوں؟" وہ اجازت لے رہا تھا۔

زوہا گڑبڑا گئ۔

" آپ۔۔۔۔ آں، کس سے ملنا ہے آپ کو۔ حمزہ کو گھر پر نہیں ہے۔"

"میں حمزہ سے نہیں اپنی بہن سے ملنے آیا تھا ۔" ایک نرم مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی۔ یہ زوہا کے لیے حیرت کا دوسرا جھٹکا تھا۔

"بھائی کو اندر نہیں بلاؤ گی زوہا۔" اس کے سنجیدہ چہرے پر اپنائیت رقم تھی۔ خود کو سنبھالتی وہ اسے اندر لے گئی۔

"اپ یہاں کیسے آئے" اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے اس کی ازلی خود اعتمادی لوٹ آئی۔

"میں کبھی اس بات کا یقین نہ کرتا کہ میرے باپ کی کوئی اولاد بھی ہے اگر ان کی آخری تحریر مجھے نہ ملتی۔" اس کی بات سنتی زوہا چونکی۔

"عنایہ مجھ سے ملی، اسکی اصلیت میں تمہارے کیس واپس لینے کے بعد جان گیا تھا۔ پھر اپنے دوست حمزہ کی شادی پر اس سے ملاقات ہوئی ، اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اور اس کے مضبوط لہجے پر ہی ڈیڈ کا ماضی کھوجنے ان کی اسٹڈی میں گیا جہاں وہ اپنے ایکسیڈنٹ سے پہلے اپنا زیادہ تر وقت گزارا کرتے تھے اور اس تحریر کے ملنے کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ مجھے افسوس ہے زوہا  ہماری بہن ہونے کے باوجود تم اپنے حق سے محروم رہیں۔ گزرے وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا اس لیے جو میرے بس میں ہے، میں وہی کر سکتا ہوں۔" اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل اس نے زوہا کی جانب بڑھائی۔

"یہ" زوہا متذ بذب تھی۔

"یہ تمہارا حق ہے۔ لے لو پلیز۔" اس نے فائل تھام لی۔

"ذوہا! کہاں ہو۔ یہ دروازہ کیوں کھول رکھا ہے۔" اسی وقت حمزہ اندر آیا تھا۔

"ارے آیان کیسے ہو۔" اسے دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہوچکے تھے۔ حمزہ آیان سے بغل گیر ہوا۔

"میں ذوہا سے ملنے آیا ہوں۔"

"جانتا ہوں۔" حمزہ نے اس کی بات کاٹی ، دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"تم زوہا کے بھائی ہو ، یہ بھی جانتا ہوں ، مجھے عنایا نے سب بتا دیا تھا اور پھر جب تم نے کل گھر کا پتا مانگا اور کچھ بتانے کا کہا میں کچھ کچھ سمجھ گیا تھا۔"پھر وہ زوہا کی جانب مڑا۔"زوہا! بھائی کو کوئی چائے شائے پلاؤ۔"

"میں لاتی ہوں۔"

"نہیں، میں آج کچھ جلدی میں ہوں کسی کو وقت دیا ہوا ہے، پھر آؤں گا تو کھانا کھا کر جاؤں گا۔" آیان نے معذرت کی۔

"پلان تو اچھا ہے۔ مجھے پہلے بتا دینا تاکہ تمہیں زوہا کے ہاتھ کے کھانے سے بچالوں۔"حمزہ کے شرارتی لہجے پر زوہا نے اسے گھورا جبکہ آیان مسکرا دیا۔

کوئی بات نہیں میں کھا لوں گا۔ چلتا ہوںں پھر۔ "آیان نے زوہا کو دیکھا تو حمزہ بول پڑا۔

"دیکھ کیا رہے ہو۔ بڑے بھائی ہو ، بہن کے سر پر ہاتھ رکھو۔"

آیان نے آگے بڑھ کر نرمی سے اپنا ہاتھ زوہا کے سر پر رکھا اور اس ایک پل میں کتنے ہی آنسو اس کی آنکھوں میں جھلک گئے۔ جنہیں اس نے پلکیں جھکا کر چھپایا۔ وہ دونوں باہر نکل گئے جبکہ وہ کتنی دیر اس مہربان پل کے فسوں میں وہیں کھڑی رہی۔

 

وہ تیز قدم اٹھاتی اس میز تک آئی تھی جہاں وہ اس کا منتظر تھا۔ اس پر نگاہ پڑنے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔

"خیریت تو ہے آپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟" اس کے اشارے پر وہ حیران سی بیٹھ گئی۔ یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ یوں آیان عزیر اسے  فون کرکے ریسٹورینٹ میں ملنے کے لیے بلائے گا اور اب تو اس نے اپنے خوابوں سے بھی نظریں چڑا لی تھیں۔

"کچھ آرڈر کر لیں۔" آیان نے مینیو کارڈ پریسا کی جانب بڑھایا، نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں۔

"نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔" اس کی گہری آنکھوں پر سے نگاہ  چرائی، اس کے بلانے پر نا چاہتے ہوئے بھی آ تو گئ تھی مگر اس کی جانب دیکھنے سے گریزاں تھیا۔

"آپ بات کریں میں ذرا جلدی میں ہوں ،گھر میں کچھ گیسٹس نے آنا ہے۔" مما کی کتنی ہی بار کال آچکی تھی، اس کے رشتے کے سلسلے میں مما نے ایک فیملی کو دعوت دے رکھی تھی۔

آیان نے اپنی پتلون کی جیب سے میرون رنگ کا چھوٹا سا رنگ کیس نکال کر پریسا کے سامنے رکھا جس پر نگاہ پڑتے ہی ایک پل کے لیے جامد ہوئی پھر چونک کر اسے دیکھا۔

"ول یو میری می۔" اس نے گویا اس کے چہرے پر ابھرتے سوال پڑھ لیے تھے۔

اور وہ یوں اچھل کر کھڑؑی ہوئی تھی گویا بجلی کی تار کو چھو لیا ہو۔

"یہ کیسا مذاق ہے۔" اس کی آنکھوں میں بہت سے آنسو جمع ہورہے تھے جس کا اسے احساس تک نہیں تھا۔ دھندلی نظروں سے اس نے اطراف میں نگاہ ڈالی۔ اگر یہ خواب تھا تو ختم کیوں نہیں ہورہا تھا۔

ایسے خالص جذبوں والی لڑکی اسے پہلے کیوں نا نظر آئی، اس وقت اسے دیکھتے یہ خیال آیان عزیر کے اندر ابھرا۔ وہ اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا اسی دھیمے لہجے میں بولا۔

"بیٹھ جائیں پریسا! میں سچ میں آپ کو پرپوز کر رہا ہوں۔"یں

گالوں پر پھسلتے آنسوؤں کو اس نے ہاتھ کی پشت  سے پونچھا، حیرت کے جھٹکے کے بعد اب دوسرا احساس شرمندگی کا تھا۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔

"اس دن نادانستگی میں ، میں نے آپ کی اور آپ کی دوست کی باتیں سن لی تھیں۔" پریسا نے پلکیں جھکائیں۔

 

"سچ یہی ہیے کہ آپ مجھے کبھی بھی نظر نہیں آئیں۔ شاید اس وقت میرے پاس وہ بینائی نہیں تھی کہ جس کی بدولت میں کسی شفاف لڑکی کا چہرہ دیکھ پاتا۔دانیہ میری زندگی میں بھیانک رات کی طرح آئی تھی۔ جس کے بعد مجھے لگا کہ میری زندگی میں کبھی روشنی نہیں ہوسکتی۔ پھر اس دن آپ کی باتیں سن کر میں دنگ رہ  گیا تھا،ٓ مجھے افسوس ہے کہ میں نے جانے انجانے میں آپ کا دل دکھایا۔"

"آپ مجھے ہمدردی میں پرپوز کر رہے ہیں؟۔" اس نے سر اٹھایا۔

آیان کے لبوں پر بھر پور مسکراہٹ پھیلی۔

"ایک ایسی لڑکی جس کے دل میں میرے لیے خالص جذبے ہوں، اس کا ساتھ پانا میری خوش نصیبی ہوگی۔" اس کی جانب اٹھی اس کی نگاہوں میں عزت تھی جو کسی بھی لڑکی کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

"آپ

 جو بھی فیصلہ کریں۔ میں بخوشی قبول کروں گا۔" اس نے گویا اسے مان بخشا۔

اور فیصلہ کرنے میں اسے لمحہ بھی نہیں لگا تھا۔آج تو اس کی ساری دعائیں پوری ہوگئی تھیں۔ہاتھ بڑھا کر رِنگ کیس اٹھاتے اور پھر ہیرے کی خوب صورت انگوٹھی اٹھا کر انگلی میں پہنتے اس نے مسکرا کر آیان عزیر کو دیکھا تھا، جو پریسا کے چہرے پر اترتے سچے رنگوں کو دیکھتا طمانیت سے مسکرا دیا۔زندگی کا بہاؤ آہستہ آہستہ درست سمت بہنے لگا تھا جس کی بدولت در آنے والا سکون کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔

وہ کمرے میں آئی تو نگاہ ترتیب سے رکھی اس کی چیزوں پر پڑی، اس کی یہ عادت زوہا کو بہت پسند تھی۔ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ اس کے لبوں پر مسکان آٹھہری ، وہ آتے ہی تیار ہونے گھس گیا تھا۔ سنگھار میز کے سامنے رکتے اس نے اپنی تیاری پر نگاہ دوڑائی ۔ ٹی پنک کلر کا جوڑا جس پر گولڈن نگوں کا خوب صورت کام تھا، پہنے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی، ساتھ میں ہم رنگ دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا۔ ہلکے پھلکے میک اپ اور جیولری نے اسے ایک الگ ہی نکھار بخشا تھا۔ کلچ کی تلاش میں الماری تک گئی۔ اوپری حصے میں پڑی ڈائری سے نگاہ الجھی۔

یہ اس کے باپ کی ڈائری تھی جو آیان نے عالیہ بیگم کو پڑھنے کے لیے دی تھی اور اب عالیہ بیگم نے اسے پڑھنے کو دی تھی۔ اس پر ہاتھ پھیرتے اس نے گہرا سانس لیا پھر ہاتھ کھینچ کر الماری بند کر دی۔

اسے یہ ڈائری پڑھے بغیر ہی ماں کو واپس کرنی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس میں ماں کی زندگی کے وہ اذیت ناک پل رقم تھے جنہیں وہ پڑھنا نہیں چاہتی تھی، ساتھ میں یقیناً  باپ کے پچھتاوے بھرے اوراق۔ مگر اب وہ ماضی کی ان تحریروں کو جاننا نہیں چاہتی تھی جس نے کبھی اس کی سوچ کو منفی رخ دیا تھا۔ اب وہ آج میں جیتے ہوئے اپنے آج کو سنوارنا چاہتی تھی۔ وہ اس ڈائری کو کھولنے بغیر ہی عالیہ بیگیم کو واپس کر دے گی۔

یک لخت دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی۔ باتھ روم سے نکلتا حمزہ سنگھار میز کے سامنے رک کر اپنے گیلے بالوں میں کنگھی پھیرنے لگا، مسکراتی نگاہ آئینے میں نظر آتے اس کے سجے روپ پر ڈالی۔

"بہت دیر لگاتی ہو زوہا تیار ہونے میں ۔" لہجے میں شرارت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

"ایک تو لیٹ ہیں اور الزام بھی مجھ ہی پر لگا رہے ہیں۔ میرے بہن کا ولیمہ ہے مجھے تو سب سے پہلے پہنچنا چاہیے۔" زوہا نے اسے گھورا۔

"آج بہن کا ولیمہ ہے، کل بھائی کا۔ اب تمہارے بہن بھائی تو فارغ ہیں پر میں تو خاصاً مصروف انسان ہوں۔"

"جی جی۔ اس بحث میں ہم بعد میں پڑیں گے اور میں آپ کو یاد کراؤں گی کہ اپنی شادی پر آپ کتنی چھٹیاں لی تھیَ ابھی دیر ہورہی ہے۔"سنگھار میز کی دراز سے میچنگ کلچ نکالتے ہو مسکراتے ہوئے لہجے میں بولی۔

"لیڈیز فرسٹ"۔ حمزہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے آگے بڑھی۔ گاڑی کی چابی اٹھاتا وہ بھی اس کے سنگ ہو لیا اور حمزہ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتی زوہا نے ہمیشہ کی طرح اپنی خوش نصیبی پر ڈھیروں شکر ادا کیا تھا، سچ ہے کہ جب انسان شکر کرنا سیکھ لیتا ہے تو خوشی خود بخود دل میں بسیرا کر لیتی ہے۔

اختتامَ۔


No comments:

Post a Comment

If you have any trouble with fodiesurmagzine. Please Let us know...