Meri Talab Ka Chand Full Novel میری طلب کا چاند

Meri talab ka Chand Full Nawal

Welcome To FodiesURMagzine

اگر آپ اس ناول (میری طلب کا چاند ) کا پارٹ نمبر 2 پڑھنا چاہتے ہیں تو یہا ں Meri Talab ka chand part 2پر کلک کریں۔

میری طلب کا چاند:( Meri Talab Ka Chand Full Nawal)

پارٹ 1


وہ موبائل پر فیس بک استعمال کر رہی تھی ۔ دوستوں کی مختلف پو سٹس پر لائک ااور کمنٹس کر تی اس کی انگلیاں ایک پوسٹ پر آ کر تھم سی گئیں۔ نہال نے سول انجینئرنگ کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کر لیا تھا۔ اس پوسٹ پر سینکڑوں لائیکس اور کمیٹس کی بھر مار تھی ۔ ند ا نے کمنٹ باکس میں مبارک باد لکھنے کے  بجائے اسٹیکرز کا آپس دبایا۔ پھولوں والے کئی اسٹیکر ز نظروں کے سامنے آگئے۔ اس نے مبارک باد والا اسٹیکر دبایا تو غلطی سے "لو یو" اسٹیکر سے انگوٹھا جا ٹکرا یا  اور وہ کمنٹ باکس میں پوسٹ ہو گیا ۔ ندا گھبرا گئی۔
ابھی ڈیلیٹ کرنے والی تھی کہ لائٹ جانے سے وائی فائی بند ہوگیا۔
"اللہ ! اب کیا کروں ، نیٹ پیکج بھی ختم ہے" وہ بے بسی سے  رونے والی ہو گئی۔


"اف  وہ بد تمیز دیکھے گا تو کیا سوچے گا اور دوسرے لوگ دیکھ کر کیا سمجھیں گے " وہ بے چین ہوگئی اور لائبہ کو فون ملایا۔
"لائبہ ! ایک مسئلہ ہوگیا ہے یار۔ "دوسری طرف فون اٹھاتے ہی وہ فوراً بولی۔
"تمہارے ساتھ کب مسئلہ نہیں ہوتا۔ " ایک سنجیدہ گھمبیر آواز بھری تو وہ مزید کچھ نہ بول سکی۔
"لائبہ ! کہاں ہے؟ " ندا نے دھیمی آواز سے پوچھا ۔ دل میں تو پنکھے لگے تھے۔
" نہ سلام نہ دعا۔ کال کرنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے" حطیم نے سابقہ انداز میں جتا یا۔
"اسلام علیکم! حظیم بھائی پلیز لائبہ کو سیل دیں۔ " اس کا بس نہیں چل رہا تھا موبائل کے اندر گھس کر لائبہ کے پاس جا پہنچے۔
"وہ اسٹڈی کر رہی ہے " حطیم نے خشک لہجے میں بتایا تو ندا نے  منہ لٹکا کر فون بند کر دیا۔
لائبہ میڈیکل کے سیکنڈ ائیر میں تھی ۔ یہ وقت اس کی پڑھائی کا تھا اور اس  کا فون پڑھائی کے وقت اس کے پاس نہیں ہوتاتھا۔ وہ صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی اور چشم تصور سے نہال کو اپنے کمنٹ پر خوشی سے نہال ہوتے دیکھنے لگی۔
"اف ۔ وہ بد تمیز تو بھنگڑے ڈال رہا ہوگا۔" ندا کو ایک بار پھر بے چینی نے گھیر لیا۔ دفعتاً اس کا موبائل بجنے لگا۔ نہال کالنگ۔ اسکرین پر جگمگا رہا تھا ندا نے کڑے دل سے کال اٹینڈ کی۔
"آج تو دل خوش کر دیا ڈیرہ۔" وہ چھوٹتے ہی بولا۔
"غلطی سے مبارک باد کے بجائے وہ اسٹیکر چلا گیا۔ اب  تم ڈیلیٹ کردو پلیز۔" وہ تھوڑی لجاحت سے بولی تو نہال نے قہقہ لگا یا۔
"غلطی ہے حسین غلطی ہے۔" وہ مزے سے بولا ۔ ندا کو تپ چڑھ گئی اور اس نے کا ل کاٹ دی۔
"بد تمیز نہ ہوتو۔ " وہ تن فن کری موباءل کو بیڈ پر اچھال  کر جیسے ہی کمرے سے نکلی ایک دم بجلی واپس آگئی۔ وہ بے تابی سے پلٹی اور بیڈ سے سیل اٹھا کر فیس بک کھولی اور نہال کی پوسٹ پر اپنا کمنٹ ڈھونڈا۔ اتنی سی دیر میں اس کے کمنٹ کو بارہ لائیکس مل چکے تھے۔نہال نے جواب میں لو یو ٹو کا خطاب صورت اسٹیکر بھیجا تھا۔ اس اسٹیکر کے نیچے مختلف خیز ایمو جیز کا تانتا بندھا تھا۔ ندا شرمندگی  سے عرق عرق ہوگئی۔ جلدی سے کمنٹ کو ڈیلیٹ کیا لیکن اب یہ عمل بے فائدہ محسوس ہوا۔ اتنے میں لائبہ کالنگ اسکرین پر چمکا تو اس نے یہ عجلت کال اٹھائی۔
"ہاں۔ ندا! مجھے کال کی تم نے ۔" وہ چوٹتے ہی بولی تو ندا کو تاؤ چڑھا۔
"تم ایک تہذیب یافتہ بندے کی بہن ہو کر بھی تمیز سے بالک عاری ہو۔ کال اٹینڈ کرتے ہی سلام دعا کرتے ہیں پھر مدعا پوچھتے ہیں۔ " وہ ناک چڑھا کر بولی تو لائبہ ہنس دی۔
"حطیم بھائی سے بات ہوئی ہے تب ہی مرچیں چبا رہی ہو"
"ہاں پڑھاکو فیملی کی پڑھا کو لڑکی یہ تم تو میری ایمرجنسی کے وقت کتابوں میں گھسی ہوئی تھیں۔" ندا کو نئے سرے سے غم ستایا۔"
"معاملہ کیا تھا۔ حطیم بھائی کے بقول بہت بے چین تھیں تم ۔" لائبہ کے  استفسار پر اس نے  لب کاٹے۔
"یار! ایک غلطی ہوگئی۔ نہال کی رزلٹ والی پوسٹ پر کانگریٹس کے کمنٹ کے بجائے لو یو والا کمنٹ بھیج دیا۔ ابھی ڈیلیٹ کر رہی تھی کہ لائٹ چلی گئی۔ نیٹ پیکج بھی ختم تھا۔ تمہیں کال ملائی کہ میرے اکاؤنٹ سےجا کر ڈیلیٹ کررہی تھی کہ لائٹ چلی گئی۔ نیٹ پیکج بھی ختم تھا۔ تمہیں کال ملائی کہ میرے اکاؤنٹ سے جا کر ڈیلیٹ کر دو تو تم پڑھائی میں مصروف۔  سو وہ کمنٹ سب نے دیکھا اور نہال کی چھچھوری ٹائپ  خوشی عروج پر پہنچ گئی۔ " ندا نے منہ بسورتے اپنا کارنامہ بیان  کیا تو لائبہ حیرت سے سنتی رہی پھر اس کے منہ سے ہنسی کا فوراہ چھوٹ گیا۔
"ندا تم نا پوری فلم ہو۔ ہا ہا۔۔۔۔" وہ ہنستی رہی۔
"میں کیوں فلم ہوں بھلا۔ ایک چھوٹی سی غلطی ہی تو ہوئی ہے۔" وہ برا مان کر بولی تو لائبہ نے اپنی ہنسی قابو کی۔
"یار! خود ہی کہتے ہو نہال کو سر نہیں چڑھانا اور اب اس کو تم نے آسمان پر چڑھا دیا ہے۔ "لائبہ نے اس کا مخصوص جملہ دہرایا۔"
"میں نے جان کر تو نہیں کیا نا۔" ندا نے اپنا دفاع کیا۔؎
"خیر ہے ندا ! وہ تمہارا منگیتر ہے۔" لائبہ نے  تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
"ہاں۔ منگیتر ہے۔ منگیتر ایسے ہوتے ہیں؟ ہر وقت دوسری لڑکیوں کا ذکر کر کرے کے میرا دل جلاتا رہتا ہے۔ فیس بک پر فی میل فرہنڈز کی بھرما ہے۔یونیورسٹی میں  بھی کئی چاند چڑھائے ہیں۔ ناصرف گرل فرینڈز بناتا ہے بلکہ ان دوستوں کی ساری تفصیلات مجھے سناتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ میرے دل پر کی بیتتی ہوگی۔" ندا بات کرتے ہوئے رو پڑی تو لائبہ تڑپ اُٹھی۔
"اف ندا جانی اب روؤ تو مت ۔ وہ لا ابالی سا لڑکا ہے۔آج کل تو ویسے بھی یہ عام سی بات ہے۔ کالج یونیورسٹی میں ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو لڑکے لڑکی  میں بات چیت ہو ہی جا تی ہے۔ وہ تمہیں جلانے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر تا ہے ۔ " اس نے اپنی معصوم سی دوست کو تسلی دی۔"
"عظیم بھائی بھی تو ہیں، ساری زندگی کو ایجوکیشن میں پڑھے۔ ڈاکٹر بن گئے۔ کبھی اس طرح چھچھورپن نہیں دیکھا ، کوئی سلیکشن ہوتی ہے۔ نہال کسی ایک لڑکی کی بات کرے کہ اس میں کچھ بہت اچھا ہے تو میں قسم سے برا نہ مانوں ۔ لیکن یہ تو راہ چلتی لڑکی کو بھی دل دے دیتا ہے۔ " ندا کی آخری بات پر لائبہ کی ہنسی نکل گئی۔
"ویسے عظیم بھائی کی تعریف کر رہی ہو آج۔ کمال نہیں ہوگیا۔" لائبہ نے بات بدلی ۔
"ہاں تو ان کی  اچھی عادت ہے ہی تعریف کے لائق"۔ باقی وہ بلاوجہ جو رعب جھاڑتے ہیں، ہو بات مجھے پسند نہیں۔" ندا نے ساف گوئی سے کہا۔
"واہ میری دوست۔ اچھی بات چاہے دشمن کی ہی ہو ، بیان کر دینا بڑے جگر ے کا کام ہے" ۔ اب ایسے وہ میرے جانی دشمن بھی نہیں بس ان کے مزاج سے خائف رہتی ہوں۔" ندا   سان سے بولی تھی۔
"ہمم۔۔۔۔۔۔صحیح ۔ اب میرے لائق کیا حکم ہے ۔ "لائبہ نے پوچھا تو ندا نے دانت کچکچائے۔
"تمہارے لیے یہ حکم ہے کہ پریشانی میں بروقت میری مدد نہ کرنے پر تم چھت کی پانی والی ٹنکی میں ڈوب مرو۔" اس نے نے مروتی سے کہ کر کال بند کی تھی۔

دوسرے روز شا کے وقت نہال ان گھر آدھمکا ۔ ندا بیڈ پر تکیہ سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ  ٹانگوں پر رکھے افسانہ ٹائپ کرنے میں مگن تھی جب نہال نے آگے بڑھ کر لیپ ٹاپ کو بند کردیا۔
"ارے میری اسٹوری۔" ندا بے اختیار چیخی تھی۔
"جانے دو فرضی کہانیاں اور مجے دیکھو، تمہارا سچا قصہ میں ہوں۔ " نہال نے سامنے بیٹھتے کہا تو ندا نے ناراضگی سے اُسے دیکھا۔
"کل تو مزہ ہی آگیا۔ تمہارے کمنٹ پر جویا ، فضا اور حرا تو باقاعدہ مجھ سے روٹھ گئیں، مجھے باری باری ان کا منانا پڑاف۔" حسب عاددت نہال نے ندا کا دل جلا کر خاکستر کر دیا۔
"وہ  تمہاری ہوتی سوتی کیوں روٹھ گئیں۔ کیا تینوں کو تم سے اجتماعی بیاہ رچانا تھا؟" ندا تپے ہوئے لہجے میں بولی۔
"ہاہاہا۔۔۔۔ اجتماعی تو نہیں مگر انفرادی طور پر وہ تمہارے منگیتر سے شادی کی خواہش مند ہیں"
نہال نے قہقہ لگا یا۔
"تو کر لو پھر ایک ساتھ تینوں سے شادی۔ میری جان چھوڑو ۔ " ند ا بپھرا اُٹھی۔
"یار شادی تو کرلوں پر تمہارا کیا ہوگا۔ تم گھی تو سوکنیں برداشت نہیں کر سکتی نا۔" وہ کچھ جھک کر ایک آنکھ دبا کر بولا۔
"سخت زہر لگ رہے ہونہال !" ندا نے بیڈ سے اتری ۔
"ارے رکو تو حسینہ ! تمہارے ہوتے میں کسی اور سے کس طرح شادی کر سکتا ہوں۔" نہال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پاس بٹھایا۔
" افئیر ز تو چلا سکتے ہو نا اور بخوبی چلا بھی رہے ہو۔ نا صر چلا رہے ہو بلکہ ببانگ دہل بتا بھی رہے ہو۔" ندا غصے سے پھٹ پڑی اور اپنا ہاتھ نہال سے چھڑایا۔
"اب ۔۔۔۔ وہ تو ابویں دل پشوری کرتا ہوں۔
آج کے زمانے میں کون نہیں کرتا۔ یہ بھی تو سوچو کہ تمہیں سب بتا  دیتا ہوں۔ کوئی مائی کا لعل ایسا کرتا ہے؟ سب چھپا چھپا کر دوستیاں کرتے ہیں۔" نہال نے معمول کے لہجے میں کہا۔
"تمہارے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔" ندا نے آنسوؤں کو اندر اتارتے پھر سوال کیا۔ نہال نے نفی میں سر ہلا یا۔ ندا نے ایک بار پھر اسی اذیت کو دل پر محسوس کیا۔
"سب کرتے ہیں۔" نہال کا جواب وہی تھا۔
"سب ایسے نہیں ہوتے نہال! کچھ با کردار بھی ہوتے ہیں۔ "ندا نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔
" اچھا ۔۔۔۔ تم نے دیکھا ہے ایسا کوئی سو کالڈ با کردار بندہ اس دور میں ؟" وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
"حطیم بھائی ہیں نا، گڈ کریکٹر۔" ندا نے بے ساختہ حطیم کا نام لیا۔ " کتنی لکی ہوگی وہ لڑکی جس کو وہ ملیں گے۔ " نہال نے ناپسندیدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"ضروری نہیں کہ جو بندہ جیسا نظر آتا  ، ہو وہ ویسا ہی ہو۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"اچھا یعنی تم جیسے لوز کریکٹر نظر آتے ہو ویسے نہیں ہو۔" ندا فوراً بولی۔
" میں لوز کریکٹر ہوں؟ کچھ تو شرم کرو اپنے مستقبل قریب کے شوہر کے بارے میں یہ بیان دے رہی ہو۔"
تمہاری حرکتوں کو دیکھ کر تمہیں شریف با کردار لڑکے کا میڈل تو نہیں پہنا سکتی ۔" وہ چِڑکر بولی۔
"ٹھیک ہے، میری دوستیاں ہیں لڑکیوں سے۔ لیکن اس کا مطلب یہ  نہیں کہ میں بیڈ کریکٹر ہوں ۔ ہاں میں منافق نہیں جیسا ہوں ، سب کے سامنے ہوں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں تم سے محبت کر تاہوں۔" اس کی بات پر ندا پھیکا سا مسکرائی۔
"عجیب محبت ہے۔ جس میں سامنے والے کے جذبات کو بے دردی سے روندا جا رہا ہے ۔ دنیا کے منگیتر جب ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ہیں تو اپنی باتیں کرتے ہیں اور یہاں پر ہم جب ملتے ہیں تم اپنی دوستوں کو ڈسکس کرنے بیٹھ جاتے ہو۔"
"تو یار ! تم بھی تو ویسی لفٹ نہیں کرواتیں مجھے ۔ نہ خود پیار کرتی ہو ، نہ کسی کو کرنے دیتی ہو۔" وہ ذومعنی انداز میں بولا۔
"مجھے حد میں رہنا اچھا لگتا ہے۔" ندا یک دم سنجیدہ ہوئی۔
"تو ٹھیک ہے رہو حد میں ۔ پھر مجھ سے شکایت مت کرو۔" وہ کٹھور پن سے بولا تو ندا کو بھی غصہ آگیا۔
" میرا دل جلتاہے نہال! ساری زندگی تمہارے ساتھ گزاری تو جل جل کر کوئلہ ہو  جاؤں گی۔ میرے بس میں ہوتا تو تمہارے جیسے مزاج کا لڑکا کبھی منتخب نہ کرتی۔ والدین بعض اوقات ظلم ہی کر دیتے ہیں بچپن میں رشتے جوڑ کر ۔ بڑے ہو کر کوئی کس عادت کا نکلے، کچھ پتا نہیں ہوتا۔" ندا نے بہت عرصے سے دل میں اٹھتی کھولن کو باہر نکالا تو نہال نے حیرت سے اُسے دیکھا۔"
"ہماری منگنی تمہیں ایک غلطی لگ رہی ہے۔ اگر تمہیں انتخاب دیا جاتا تو تم اپنے جیسا کوئی پارسا منتخب کرتی۔" وہ چبا کر بولا تو ندا کو اپنے کچھ غلط بول  دینے کا احساس ہوا۔"
میرا مطلب ہے نہال۔۔۔۔۔۔۔!
"میں سمجھ چکا ہوں تمہاری بات کا مطلب اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ گڈ بائے۔"
نہال نے اس کی بات کاٹ کر کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
ند ا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
پھر وہ رات کا کھانا بھی ٹھیک سے نہ کھا سکی۔ رہ رہ کر اپنی حد درجہ  کی صاف گوئی پچھتاتی رہی۔پھر سوچتی بھلا کب تک اپنے جذبات دبا کر بیٹھی رہتی۔
اب کم از کم اسے احساس تو ہوگا کہ وہ جو کر رہا ہے وہ غلط ہے ۔ پھر نہال کی ناراضی کا خیال آتا تو بے چین ہو جاتی۔ وہ کسی کو خود  سے خفا نہیں دیکھ سکتی تھی اور یہ حساسیت ہی تھی جس نے اس کو تمام رات بے کل رکھا۔
اگلے دن وہ تایا کے پورشن میں آئی تو یہاں ہنگامہ برپا تھا۔ رمشہ آپی اور لائبہ بڑی بڑی چادروں سے اپنے جسم اور چہرے اچھی طرح لپیٹے ۔ بینا باجی کی بچیوں کو گود میں اٹھائے تقریباً جھلا رہی تھیں جو حلق پھاڑ پھاڑ کر مما مما کی گردان کیے جا رہی تھیں۔
"میں مما ہوں تمہاری چندا"۔ رمشہ نے ڈھائی سالہ عدن کو بینا باجی کی آواز نکال کر یقین دلایا توعدن نے رونے کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے رمشہ کے چہرے سے چادر کھینچنا شروع کر دی۔
"ارے۔۔۔ کیا کر رہی ہو چالاک لڑکی۔"
رمشہ کا آدھا چہرہ کھلا تو وہ بوکھلا کر اسے ڈھانپنے لگی مگر تب تک عدن بی بی کے شک کی تصدیق ہوگئی کہ چادر میں چھپی ماں نہیں خالہ ہے۔ اس نے چیخ و پکار اور تیز کر دی۔
"اللہ بینا باجی کی بچیاں تو پوری آفت ہیں۔" لائبہ کو غصے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آرہی تھی۔ اس کی گود میں ڈیڑح سال کی حفصہ بھی ادھم مچا رہی تھی۔
"اوہ خدا! میرے تو بازو تھک گئے اسے گودی میں اٹھا  کر۔ " لائبہ سے اچھی خاصی صحت مند بچی سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔
" لائیں ، اسے مجھے دے دیں۔" ندا نے آگے بڑح کر رمشہ سے عدن کو لیا جو رو رو کر بے حال ہورہی تھی۔
"بینا باجی کہاں ہیں۔" ندانے ہاتھوں سے پھسلتی بچی کو کس کر پکڑا۔
"امی کے ساتھ دورے پر نکلی ہیں۔ میکے آکر وہ کبھی ٹک کر بیٹھی کہاں ہیں۔ سب رشتہ داروں سے ملنے ملانے دوڑتی ہیں۔" رمشہ نے چادر صوفہ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
"پھر بچیاں ساتھ لے جاتیں نا۔" ندا نے دونوں کزنز کو ترحم آمیز نظروں سے دیکھا۔
"کسی جاننے والی کی تعزیت پر گئی ہیں۔"
لائبہ نے فیڈر حفصہ کے منہ  میں دیتے ہوئے بتایا۔ حفصہ نے ہاتھ مار کر فیڈر گرا دیا۔ ندا کو مستقبل کی ڈاکٹرز کی یہ حالت دیکھ گد گدی بھی ہورہی تھی پر کھل کر ہنسنے میں نقص امن کا خدشہ تھا۔
بینا باجی ندا کی سب سے بڑی تا یازاد بہن تھیں جو اپنے خالہ زاد کزن کے ساتھ گاوں میں بیاہی ہوئی تھیں۔ وہ بھی ڈاکٹر تھیں مگر عاقب بھائی نے ان کو پریکٹس نہیں کرنے دی۔ بینا باجی کو ہاؤس وائف بننے پر خاص اعتراض بھی نہیں تھا۔
وہ بڑی وڈیرن (زمیندارنی) بن کر مزے میں تھیں۔ جو چار پانچ ماہ بعد ننھیال آتیں تو خالاؤں ماموں سے مانوس نہ ہو پاتیں۔
بینا باجی سیرو تفریح کی شوقین تھیں۔ سو میکے آتیں تو نت نئے پروگرام گھومنے پھرنے کے بناتی رہتیں۔ میڈیسن کی پڑھائی میں الجھی ہوئی رمشہ ، لائبہ اس بات سے بے زار رہتیں۔ لیکن تایا کی پہلو ٹھی کی لاڈلی بیٹی ہونے کی حیثیت سے ان کی بہت اہمیت تھی۔ بڑی بہن کے آگے تو اکلوتے مزاج دار بھائی کی بھی دال نہیں گلتی تھی۔
"ارے۔ میں وہ گھڑی کے لیے گئی اور پیچھے میری بچیوں کو رلا رلا کر نڈھال کر دیا۔ " بینا باجی نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی دہائی دی تو تینوں بری طرح اچھل پڑیں۔
"غضب خدا کا، گیٹ کے باہر تک میری شہزادیوں کے رونے کی آواز آرہی ہے۔" انہوں نے جھٹ پٹ اپنی بچیاں کھینچ کر سینے سے لگائیں۔ بچیاں بھی ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گئی تھیں۔
" ان کا والیوم ہی اتنا اونچا ہے ، ہماراکیا قصور ۔" لائبہ نے کندھے اچکائے تو تائی نے گھور کر بیٹی کو دیکھا۔
"کیسی ہوندا؟ آمنہ کیسی ہے؟ تائی نے ندا پوچھا۔
الحمداللہ۔ سب خیریت ہے۔"
"ندا جانی ، بڑے دن بعد چکر لگایا۔" بینا باجی بھی پیار سے ملیں ۔" تمہاری افسانہ نگاری کیسی چل رہی ہے۔ کتنے افسانے شائع ہوئے۔" پھر اشتیاق سے پوچھا تو دنا مسکرا دی۔ اس طرح کے سوال کی توقع اس گھر میں صرف بینا باجی سے ہی  کی جاسکتی تھی۔
"آٹھ افسانے دو مکمل ناول۔" ندا نے بتایا تو باجی بے طرح خوش ہوئیں۔
" ارے واہ۔ یہ ہوئی نا بات۔ مجھے تو اب فرصت کم ملتی ہے مگر مجھے دو چار میگزین دے دینا۔ واپس گاؤں جا کر پڑھوں گی۔" انہوں نے کہا تو ندا نے اثبات میں سر ہلایا۔"
" آپ پڑھ کر رائے ضرور دیجئے گا۔ ایک آپ ہی ہیں جو میری اس صلاحیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ورنہ ہماری فیملی میں سے کسی کو ذرا دلچسپی نہیں۔ ' ندا نے افسردگی سے کہا تھا۔
" بس چند ا ! اسب کے شوق الگ الگ ہیں حالانکہ مجھے شروع ہی سے میڈیکل پسند ہے پر ڈائجسٹس بھی جم کر پڑھے۔۔ حطیم بڑا ہوا تو بہت چڑتا تھا پر چھوٹے بھائی کو سنتا کون ہے۔ میں کہتی جا کر اپنی بیوی  پر رعب جمانا ، اس کو ہاتھ نہ لگانے دینا میں تو پڑھوں گی۔" وہ گزرے  دنووں کو دہرا کر کھلکھلا ئی تھیں۔
"اب حطیم نے چھوٹی بہنوں کو کھینچ کر رکھا ہے۔ کسی ایکسڑا سرگرمی میں انوالو ہونے نہ دیا بس  میڈیکل سر پر سوار کرددی دونوں کے۔" وہ رمشہ اور لائبہ کو دیکھ کر افسوس سے بولیں تو دونوں نے مظلوم سے چہرے بنا لیے۔
" نہ چندا! دل برا نہ کرو۔
کل کا پروگرام ڈن ہے نا۔ ندا ! تم بھی تیار رہنات کل شام کو۔ " ۔ بینا باجی نے آفر کی تو ندا نے سر ہلایا ۔
"جانا کہاں ہے؟ رمشہ نے اہم سوال کیا۔"آوارہ گردی کرنے۔"بینا باجی نے قہقہہ لگایا اور پھر چاچی سے باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ ندا نے موقع غنیمت جان کر لائبہ کا ہاتھ  تھاما اور اس کے بیڈ روم میں چلی آئی۔
ہاں اب سناؤ نئی تازی۔ " لائبہ جانتی تھی اسے کوئی بات بتانی ہے تب ہی کھینچ لائی ہے۔
"کیا نئی تازی"۔ ندا نے لمبی سانس لی۔ لائبہ کے استفسار پر کل کی ٹینشن چہرے پر در آئی تھی۔ آنکھیں ایک دم چھلک گئیں۔ لائبہ نے پریشانی سے اسے دیکھا۔
"تمہیں کیا ہوا ہے ندا!"
"زکام۔" ندا نے ناک رگڑتے نظریں چرائیں۔
" تم جانتی ہو، تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا پھر بولنے کی کوشش  کیوں کرتی ہو ۔ چلو جلدی بتاؤ کیا بات ہوئی ہے۔" لائبہ نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا تو ندا لب کاٹنے لگی۔
"وہ۔۔۔ کل نہال کے ساتھ میری۔۔۔۔" ندا نے مختصر ساری کہانی کہہ سنائی۔
" ہمم ۔۔ تو اب موصوف کو غصہ چڑھا ہے۔"  لائبہ نے لمبی سانس کھینچی۔
"خود زمانے بھر کی آوار گیاں کرتا پھرے۔ تم جل جل کر مر جاؤ اس کی بلا سے۔ کوئی پروا نہیں منگیتر کے احساسات کی اور ذرا  سا آئنہ دکھا دو تو بلبلا اٹھتے ہیں حضرت۔ اچھا کیا تم نے جو حطیم بھائی کی مثال دی۔ خاندان کے سب لڑکے اس کی طرح تھوڑی ہیں۔ اور اب  روٹھا رہنے دو اسے۔ زیادہ پروا کروگی تو اس کو لگے گا اس کی کوئی غلطی نہیں۔" اس نے ندا کے بکھرے بال سنوارے تو ندا پھیکا سا مسکرا دی۔
" ایسے ہی مسکراتی رہو۔ یہ عمر کیا تمہارے جل جل کر مرنے کی ہے۔" لائبہ نے اس کو گلے لگایا تو ہو سہیلیی کی محبت پر آب دیدہ سی ہوگئی۔
"ارے اب روؤ  تو مت۔" لائبہ نے پیار سے اس کی آنکھیں صاف کیں۔
" بد تمیز لڑکا میری بہن کا اتنا رلا رہا ہے۔"اسے نہال پر ایک بار پھر تاؤ آیا۔ اگروہ حطیم بھائی کے ذکر سے چڑ رہا ہے نا ندا! تو اس کو چڑاؤ۔زیادہ سے  زیادہ حطیم بھائی کی تعریفیں کرو۔ اس کو باور کرواؤ کہ تمہیں ایسے لڑکے پسند ہیں۔ پھر دیکھنا وہ کیسے جلن و حسد کا شکار ہوتا ہے اور حسدکی آگ اس کو تمہارے لیے اچھا ببنے پر مجبور کر دےگی۔"
لائبہ سے پیاری دوست اور کزن کا دکھ برداشت نہیں ہورہا تھا۔ وہ اپنی طرف سے نہال کو سبق سکھانے کے گر بتانے لگی۔ ندا  بغور اس کے مشورے سنتی رہی۔
لائبہ کی باتوںن سے کسی حد  تک دل کو تسلی ملی تھی۔ سو اگلے دن ندا کا موڈ خوش گوار تھا۔ بینا باجی ، رمشہ اور لائبہ کے ساتھ بقول بینا شہر بھر کی خاک چھانتے  بہت مزا آیا۔ شام تک مالز کی برانڈڈ شاپس سے اچھی خاصی شاپنگ بھی کر لی گئی۔ اب ارادہ فوڈ کارنر پر دھاوا بولنے کا تھا کہ بینا باجی کو یاک مرد انہ شاپ پر حطیم نظر آگیا۔
" لو جی۔ ہمارے ساتھ گھومنے جانا ہو تو صاحب بہادر سو نکھرے دکھاتے ہیں، یہاں اکیلے اکیلے اپنی  شاپنگ میں مصروف ہیں۔"
وہ اپنی بچی ندا کو تھما کر خود حطیم کے سر پر جا پہنچیں۔ اپنی دھن میں مگن حطیم ، بینا باجی کو دیکھ کر چونک اٹھا۔ دکان کے گلاس وال سے نظر آے اس کے تاثرات اور بینا باجی کی چلتی زبان ان تینوں کو مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
"بس بس بہانے چھوڑ و اور اچھا سا کچھ کھلاؤ ہمیں۔" بینا باجی حطیم کا بازو پکڑ کر دکان سے برآمد ہوئیں۔
" واپسی بھی اب تمہارے ساتھ ہی ہوگی۔" وہ اعلان کر کے ایکسیلریٹر   کی طرف بڑھیں تو حطیم نے بے چارگی سے ان کی پیروی کی۔ فوڈ کارنر سیکنڈ فلور پر تھا۔ رمشہ اور لائبہ، بینا باجی کے ساتھ ایکسیلریٹر پر چڑھیں۔ ندا نے بھی بچی گود میں اٹھائے پائیدان پرپیر رکھے۔ اچانک اس کا توازن  بگڑا ور وہ جھٹکے سے پیٹھ کےبل پیچھے کی طرف لہرا کر گری۔ حطیم جوان سب کے پیچھے تھا فوراً آگے جھکا اور فرش پر گری ندا کو بازوؤں سے کھینچ کر اوپر چڑھتی برقی سیڑھیوں سے دور کیا۔ ندا نے ننھی عدن کو سختی سے بانہوں میں جکڑے رکھا تھا۔
"ہائے اللہ یہ کیا ہوا۔ " بینا باجی جو اوپر پہنچ چکی تھیں یہ منظر دیکھ کر چینخیں ۔ رمشہ اور لائبہ بوکھلا کر ساتھ والی برقی سیڑھیوں کی طرف دوڑیں ۔ حطیم نے تب تک بینا باجی کی بیٹی ندا سے لے لی تھی۔ اور اب بادل ناخواستہ ندا کو ہاتھ بڑھا کر اٹھنے میں مدد دے رہا تھا۔
"ایکسییلرٹر پر بیلنس رکھنا نہیں آتا تو چڑھتی کیوں ہو۔" وہ بہت بگڑے  انداز میں ندا کو گُھور کر بولا تو ندا شرمندگی سے عرق عرق ہوگئی۔ پہلے ہی ایک دم گرنے پر دل دہل گیا تھا پھر پبلک پلیس  پر لوگوں کی موجودگی اور اسمارٹ فونز سے مووی بنا لینے کا خیال ستا رہا تھا۔ حطیم کی بات پر وہ رونے والی ہوگئی۔
"ندا ! تم ٹھیک تو ہو۔ عد ن میری بچی"۔ بینا باجی نے جھپٹ کر اپنی بچی حطیم سے لے  کر اسے چوما۔
"کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔" رمشہ نے ندا کو کندھے سے لگا کرپوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا  حالانکہ کمر بہت درد کر رہی تھی مگر حطیم کے سامنے وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
" شکر ، سب خیر رہی۔ گھر جا کر صدقہ نکالوں گی۔" بینا باجی نے مطمئن ہو کر کہا۔
"کچھ بھی کیجئے گا۔ ابھی تو یہا ں سے چلیں۔ تماشا بنا دیا خواہ مخواہ ۔" حطیم آف موڈ سے لفٹ  کی طرف بڑھا کہ دوبارہ برقی سیڑھیوں کا رسک لینا عقل مندی نہیں تھی۔ پھر اسی موڈ سے ان سب  کو اچھا سا کھانا کھلایا۔ مگر اب ماحول یکسر بدلا ہوا تھا ۔
"بینا باجی نے حطیم بھائی کو خواہ مخواہ ساتھ لے لیا۔ اب دیکھو تو موڈ خراب کیے بیٹھے ہیں۔ " لائبہ نے ندا کے کان میں سر گوشی کی تو ندا نے بغور حطیم کو دیکھا جس کی  چہرے پر دنیا بھر کی بے زاری طاری تھی۔
" چلیں اب"۔ کھا نا کھا کر سب سے پہلے حطیم نے اٹھنے میں پہل کی تو یہ سب بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ پھر گاڑی میں بیٹھ کر گھر واپس آنے تک خاموشی ہی رہی۔
"کیسی ہو ؟" نہال نے اچانک آکر چونکایا تھا۔ ندا بالوں میں ہئیر برش پھیرتی تھم سی گئی۔
"بالکل ٹھیک تم سناؤ۔" وہ اس کے چہرے پر گزری باتوں کا عکس ڈھونڈنے لگی۔
"مزے میں۔" وہ صوفہ پر دھپ سے بیٹھا تھا۔
"کیا بتاؤں ، تتلیوں کے درمیان ہوں چوبیس گھنٹے۔" وہ چٹخارا لے کر بولا تو ندا حلق تک کڑوی ہوگئی۔
" تم نے انجینئرنگ کی ہے یا فلرٹ پن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ " وہ  چیخ کر بولی تو نہال نے قہقہ لگایا۔
" جل گئی نا۔ شاباش جلتی رہو۔ اس بہانے تمہاری کیلوریز برن ہوں گی۔" نہال نے مسخرے پن سے کہا۔
" آج تک ایسا منگیتر دیکھا نہ سنا ۔ جو غیر لڑکیوں کو اس طرح اپنی منگیتر کے سامنے ڈسکس کرتا ہو" ۔ ندا بڑ بڑائی تھی۔
" تم سچ مچ والی منگیتر بنو تو میں کیوں ادھر ادھر منہ ماری کروں۔" وہ صوفہ سے اٹھی کر ایک دم ندا کے مقابل کھڑا ہوا۔کیا مطلب؟ ندا جانتی تھی ، اب وہ کیا کہنے والا ہے مگر قصد اً انجان بن گئی۔
"اب اتنی بچی بھی مت بنو۔ یونیورسٹی میں پڑھتی ہو، نیت یوز کرتی ہو اور رئیل فیانسی کا مطلب نہیں جانتی۔"وہ کچھ قریب آیا تھا۔
دیکھو ندا! مجھے تم سے جو چاہیے وہ مل نہیں رہا تب ہی میں گرل فرینڈز بنا رہا ہوں۔ جانتی ہونا!"
نہال نے اچانک اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو ندا کرنٹ کھا کر ایک دم دور ہٹی اور بے یقینی  سے نہال کو دیکھا۔ آج نہال بہت کھل کر بات کر رہا تھا۔
"یہی کرتی ہو میرے ساتھ۔ میرا ذرا سا چُھونا  تمہیں ناگوار گزرتا ہے۔ تم نے مجھے وہ پیار ، وہ کئیر کبھی دی ہی نہیں جو منگیتر کی حیثیت سے مجھے ملنی چاہئے۔ " وہ بھڑک کر بولا۔ ندا کا دل لرزا اٹھا۔
"کون سا پیار چاہیے تمہیں ۔ جل جل کر خاک ہوگئی ہوں۔ رُلا رُلا کر مار دیا ہے۔ "
" تو جان ! کون کہتا ہے، روتی  رہو۔ لائف انجوائے کرو۔ کبھی گھومنے نکلو میرے ساتھ۔ باتیں کریں دو چار۔ کچھ دل کی کہیں ، کچھ سنیں" نہال نے اسے نرم دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔
"نہال ! " ندا نے ناگواری سے اپنا ہاتھ کھینچا۔
"ہم نکلتے تو ہیں گھومنے پھرنے  پوری فیملی کو لے کر " نہال نے برا سا منہ بنا لیا۔
"ایسا گھومنا نہیں ۔ میرے ساتھ اکیلی چلو۔ اپنے فارم ہاؤس پر ایک دن گزاریں بھر پور طریقے سے۔
صرف ہم ہوں اور پیار محبت کی باتیں ۔ " نہال نے ندا کے ہاتھ پر اپنا دباؤ بڑھایا۔
"نہال ! ہم عزت دار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے یہاں اتنی قربت صرف میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے۔" وہ خائف ہو کر بولی تھی۔
" ہاہاہا۔۔۔۔لگتا  نہیں تم اس زمانے کی لڑکی ہو۔ ایک پاپولر فکشن رائٹر۔ اپنی اسٹویرز میں لڑکا لڑکی کو رومانس کیسے کرواتی ہو۔ کیا پچھلی صدی کی ان چھوئی اور حسرت زدہ محبت کرتے ہیں تمہارے  کردار۔"
نہال نے قہقہ لگا کر طنز سے پوچھا تو ندا حیران رہ گئی۔ آج سے پہلےوہ اتنا بے باک کبھی نہ ہوا تھا۔ نہ ہی کبھی اس طرح ندا کے لکھاری ہونے کو طنز کا نشانہ بنا یا تھا۔
"ایک رائٹر کی ویلیوز ہی اس کی لکھائی  سے جھلکتی  ہے اور میں اپنی اسٹوریز میں محبت کو ایک آفاقی جذبے کے طورپر پیش کرتی ہوں۔ جو محبت کی اصلی اساس ہے وہی دکھاتی ہوں۔ میرے کردار ایک دوسرے سے باعزت محبت کرتے ہیں۔ وہ مستحکم لہجے میں بولی۔
"اچھا تو میں تم سے با عزت محبت نہیں کرتا۔ کہیں  تنہائی میں مل  بیٹھ کر دو چار پیات بھری  باتیں کرنے سے محبت  بے عزت ہو جائے گی۔" نہال نے سابقہ ٹون میں کہا۔
"ہاں، اس طرح محبت رسواہی ہو جاتی ہے۔ اپنی نظروں میں آپ گِر جاتی ہے۔" ندانے دو ٹوک اندا ز میں کہا۔
"تم بلاوجہ   پوز کر رہی ہو ندا! اور کب سے کرتی آرہی ہو۔ میں فیڈ اپ ہورہا ہوں تمہاری سو کالڈ پارسائی سے۔" نہال کے چہرے پر بےزاری چھائی ہوئی تھی۔
"نہال ! تم ایسے کیوں ہو۔ ہماری فیملی کے دوسرے لڑکے بھی تو ہیں۔ وہ تو خاندان کی لڑکیوں  کو اپنی عزت سمجھتے ہیں اور تم۔۔۔۔۔"
" میں نے کیا کر دیا ہے ایسا کہ تم کو اپنی عزت خطرے میں نظر آرہی ہے۔" نہال نے درستی سے کہا۔"اور خاندان کے لڑکوں میں سر فہرست شرافت کے اونچے درجے پر تمہارے حطیم صاحب برا جمان ہوں گے۔ جنہوں نے کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ہوگا۔ ہےنا۔" وہ تمسخرانہ بولا تو ندا نے تاسف سے اسے دیکھا۔
"تمیز سے بات کرو۔ وہ ہمارے بڑے کزن ہیں۔" وہ فوراً بولی تو نہال نے سر جھٹکا ۔
"بڑے نہیں سر چڑھے کہو۔ ہمارے بڑوں نے ان کو بہت سر چڑھا لیا ہے، خود کو بہت ذہین اور اسمارٹ سمجھتے ہیں۔ خاندان کے پہلے چشم وچراغ کیا ہوئے، کنگ بن گئے ہو نہہ۔" نہال تنفر سے بولا تھا۔
"خیر چھوڑو یہ باتیں۔ پھر چل رہی ہو نا میرے ساتھ۔" وہ ایک دم سابقہ انداز میں پلٹا تو ندا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"نہیں۔" پھر سنھبل کر بولی۔
"اوکے۔ " نہال کےچہرے پر تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی۔" برداشت کرو پھر میری گرل فرینڈز اور ان سے جڑے قصوں کو ۔ " وہ اطمینان سے بولا تو ندا کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔
"گُڈبائے"۔ نہال کہ کر رکا نہیں اور ندا کی آنکھیں نم ہونا شروع ہوگئیں۔
پھر کتنے دن   وہ بے چین رہی ۔ نہال کا یہ  رویہ معمول کا حصہ بن چکا تھا مگرنداکی حساس فطرت اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔
جاری۔۔۔

اگر آپ اس ناول (میری طلب کا چاند ) کا پارٹ نمبر 2 پڑھنا چاہتے ہیں تو یہا ں Meri Talab ka chand part 2پر کلک کریں۔

کیا آپ بھی روزمرہ  کھانا پکانے  کی ٹینشن میں مبتلا ہیں اور آپ کو یہ مسائل پیش آرہے ہیں کہ آج کیا بنائیں تو آپ کی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے ہم آپ کے لیے اردو لینگوئیج میں مختلف ریسپیز لے کر آئے ہیں  ۔ اگر آپ اردو  لینگوئیج میں مزیدار ریسپیز سیکھنا چاہتے ہیں تو یہاں اس لنک FodiesUrپر کلک کریں  جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔

کیا آپ روزمرہ زندگی  کے کاموں کو آسان بنانا چاہتی ہیں اور اپنی زندگی میں آنے والی بہت  سے مسائل سےبچنا چاہتی ہیں یا صحت کےمطلقہ آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟  تو ہمارے دئیے گئے اس لنکfodiesDailytips پر کلک کریں اور صحت اور روزمرہ کاموں کے ٹوٹکیں پڑھیں جو آپ کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہونگے۔



اگر آپ ہمارے سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں ،ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا ہماری سروسز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو یہاںfodiesAboutContact پر کلک کریں۔

اگر آپ ہماری ریسپیز کو انگلش یا میسج لینگوئج میں پڑھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیئے گئے لنکس پر کلک کریں۔
 For Message Language  fodiesHindi
For English Language fodiesEng
You are Reading Totkay in Urdu.
If You Want To Read The Recipes in English OR Hindi Then Click Below The Links.

ThankYou!


No comments:

Post a Comment

If you have any trouble with fodiesurmagzine. Please Let us know...